’ڈوسلڈورف کا مریض‘ ایچ آئی وی سے نجات پانے والا تیسرا فرد
21 فروری 2023سائنسی جریدے نیچر میں پیر 20 فروری کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں ایک 53 سالہ مرد مریض کے کیس کی وضاحت کی گئی ہے جس کے لیوکیمیا کے علاج کے لیے بون میرو (سٹیم سیل) کی پیوند کاری کی گئی۔
جرمنی کے یونیورسٹی ہسپتال بون میں متعدی امراض کے پروفیسر اور سربراہ یورگن راکسٹرو کے مطابق، ''یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ طریقہ علاج امید افزا ہے اور اسے دہرایا بھی جاسکتا ہے۔‘‘ تاہم، محققین نے نشاندہی کی ہے کہ یہ علاج کئی دوسرے مریضوں کے لیے کامیاب ثابت نہیں ہوا۔
ٹرانسپلانٹ کے ذریعے 'صحت یاب‘ ہونے والا تیسرا مریض
''ایچ آئی وی کے ٹھیک ہونے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اگرچہ، اس پر ابھی بھی بحث جاری ہے لیکن ایچ آئی وی کے علاج کے اس تازہ کیس نے اب سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد کو تین تک پہنچا دیا ہے۔
ایچ آئی وی کے مرض کی ایک ماہر شیرون لیون اور ان کی ساتھی جینیفر زرباٹو نے 2020 ء میں جریدے دی لانسیٹ میں لکھا کہ حتمی طور پر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص ایچ آئی وی سے ٹھیک ہوا ہے کیونکہ یہ وائرس بہت طویل عرصے تک مدافعتی خلیوں کے اندر چھپا رہ سکتا ہے اور ان کا پتہ لگانے کے لیے دستیاب طریقے محدود ہیں۔
علاج کامیاب کیوں؟
ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہونے والے خلیوں میں ایک ریسیپٹر ہوتا ہے جسے CCR5 کہتے ہیں۔ صحت یاب ہونے والے تینوں کیسز میں HIV-1 کے مریض تھے۔ ان تینوں مریضوں نے ایسے عطیہ دہندہ کا سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کروایا جس میں نایاب لیکن قدرتی طور پر پیدا ہونے والے CCR5 کی دونوں اقسام موجود تھیں۔ ان اقسام کے حامل افراد میں CCR5 ریسیپٹر کا اظہار کم یا بالکل نہیں ہوتا ہے، جو کہ HIV وائرس کی بعض اقسام کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بنیادی طور پر مریض کے مدافعتی نظام کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ وہ ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔
'ڈوسلڈورف کا مریض‘
صحت یاب ہونے والے اس تیسرے مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ وہ ایچ آئی وی ٹائپ ون (HIV-1) کا شکار تھے اور فروری 2013 میں ان کے ٹرانسپلانٹ کے بعد ڈوسلڈورف یونیورسٹی ہسپتال کے محققین نے نو سال سے زائد عرصے تک اس کی نگرانی کی۔
یہ مریض لیوکیمیا کی ایک قسم مائلیوڈ لیوکیمیا کا شکار تھا۔ لیوکیمیا کینسر کی ایک قسم ہے، جو ہڈیوں کے گودے کو متاثر کرتی ہے۔ اس مریض نے نومبر 2018 ء تک ایچ آئی وی کے لیے اینٹی وائرل دوا لینا جاری رکھی۔ اس موقع پر محققین نے اس کا علاج بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان محققین کے بقول مریض کی صحت یابی سے متعلق جاننے کے لیے علاج کی بندش ہی واحد راستہ تھا۔
اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی کو روکنے کے چار سال بعد یہ محققین اس مریض میں ایسے کسی ایچ آئی وی وائرس کے نشان کا پتہ نہیں لگا سکے جو انفیکشن کا سبب بن سکتا ہو۔ ایچ آئی وی وائرس کا جینیاتی مواد زیادہ تر ناقابل شناخت تھا۔ اس کے بعد ہی محققین نے کہا کہ یہ نتائج اس بات کا مضبوط ثبوت ہیں کہ ایچ آئی وی ون کا علاج ہو چکا ہے۔
تاہم بعض محققین کے خیال میں اگرچہ یہ مطالعہ ایچ آئی وی کے کامیاب 'علاج‘ کے دو سابقہ واقعات میں اضافہ کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ایچ آئی وی کے علاج کا ایک محفوظ اور قابل عمل متبادل ہیں۔
ایسٹیبن پارڈو ( ش ر⁄ ا ب ا)