چیونٹیوں کی غیر قانونی تجارت عالمی مسئلہ کیوں؟
17 مئی 2025کینیا میں حال ہی میں چار نوجوانوں کو چیونٹیوں کی اسمگلنگ کی کوشش کے جرم میں ملوث پائے جانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ دو الگ الگ واقعات میں ان افراد کو سات ہزار سات سو امریکی ڈالر جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
ان جرائم میں بیلجیم کے دو، ایک ویتنامی اور کینیا کا ایک شہری ملوث پایا گیا۔ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ملزمان نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس چیونٹیاں موجود تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ انہیں شوقیہ اکٹھا کر رہے تھے۔ تاہم کینیا کی عدالت نے ان کے مؤقف پر یقین نہیں کیا۔
بیلجیم کے دونوں نوجوانوں کے قبضے سے پانچ ہزار سے زائد زندہ چیونٹیاں برآمد ہوئیں، جو روئی کے ساتھ تقریبا دو ہزار چھوٹی پلاسٹک ٹیوبز میں رکھی گئی تھیں۔ ان دونوں نوجوانوں کی عمریں انیس انیس برس بتائی گئی ہیں۔
ویتنامی اور کینیا کے شہریوں کے پاس سے تقریبا تین سو چیونٹیاں برآمد ہوئیں۔ انہون نے بھی ان چیونٹیوں کو ایک سو چالیس کے قریب ٹیوبز میں رکھا ہوا تھا۔
قیمتی چیونٹیوں کی اقسام
مجرمان کے قبضے سے ملنے والی کچھ چیونٹیاں 'جائنٹ افریکن ہارویسٹر اینٹ ‘ (Messor cephalotes) تھیں۔ اس قسم کی فی چیونٹی کی قیمیت ایک سو سے دو سو بیس امریکی ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر یہ اسمگلنگ کامیاب ہو جاتی تو مجرمان بڑی رقم کما سکتے تھے۔
کینیا وائلڈ لائف سروس (KWS) کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ ملک میں جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا مظہر ہے۔
کے ڈبلیو ایس نے کہا کہ چیونٹیوں کی اسمگلنگ بائیو پائریسی بھی کہلاتی ہے کیونکہ یہ ناگویا پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے، جو حیاتیاتی وسائل کے منصفانہ اور مساوی فائدے کی تقسیم کے لیے بین الاقوامی معاہدہ ہے۔
بڑھتا ہوا مسئلہ
کینیا میں بائیو پائریسی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ بن رہا ہے۔ ویبسٹر۔ میریم ڈکشنری کے مطابق بائیو پائریسی ایسے حیاتیاتی مواد (جیسے دواؤں والے پودے) کا غیر اخلاقی یا غیر قانونی حصول اور تجارتی استعمال ہے جو کسی ملک یا علاقے کی ملکیت ہو۔
کینیا وائلڈ لائف سروس کے مطابق حالیہ واقعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ غیر قانونی وائلڈ لائف ٹریڈ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یعنی اب بڑے مشہور جانوروں کے ساتھ ساتھ کم معروف مگر ماحولیاتی طور پر اہم جانوروں کی غیر قانونی تجارت بھی ہونے لگی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے جرائم دنیا بھر میں منشیات، جعلی اشیاء اور انسانی اسمگلنگ کے بعد چوتھا سب سے بڑا سرحد پار مجرمانہ کاروبار ہے۔
اگرچہ کیڑے مکوڑوں کی غیر قانونی تجارت نسبتاً کم دیکھی جاتی ہے لیکن اس بارے میں مکمل اعداد و شمار دستیاب نہیں کیونکہ اس کی کوئی مرکزی ڈیٹابیس نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شوقین افراد غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی چیونٹیوں اور مکڑیوں کے لیے بھاری رقم دینے کو تیار ہوتے ہیں۔
چیونٹیوں کی منفرد خصوصیات
کینیا وائلڈ لائف سروس کے مطابق، جائنٹ افریکن ہارویسٹر اینٹ اپنی منفرد عادات اور پیچیدہ کالونی بنانے کی صلاحیت کی وجہ سے شوقین افراد میں مقبول ہے۔ چیونٹی پالنے والے شیشے کے ڈبے (فارمیکیریئم) میں ان کی کالونی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ اپنی قسم کی سب سے بڑی چیونٹی ہے، جو 20 ملی میٹر تک لمبی ہوتی ہے جبکہ کوئینا اینٹ 25 ملی میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔
ماحولیاتی اور انسانی خطرات
چیونٹیوں سمیت دیگر جانوروں کی غیر قانونی تجارت ماحولیاتی نظام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ جیسے جنوبی امریکہ کی 'ریڈ فائر اینٹ'، جو حالیہ برسوں میں یورپ میں بھی دریافت ہوئی ہے۔
اگر اس غیرقانونی تجارت کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ مقامی ماحول کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جائنٹ افریکن ہارویسٹر اینٹ یورپ میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ اسے زیادہ گرم درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت انسانی صحت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ غیر صحت بخش حالات میں ان جانوروں کی نقل و حمل اور انسانوں سے بڑھتا ہوا رابطہ 'زونوٹک' بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی مثالوں میں سیلمونیلا، کورونا وائرس، منکی پاکس اور برڈ فلو بھی شامل ہیں۔
جرمنی کی نیچر اینڈ بایو ڈائیورسٹی کنزرویشن یونین (NABU) کے مطابق تقریباً 75 فیصد نئی متعدی انسانی بیماریاں جانوروں سے آتی ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ میملز اور پرندوں میں تقریباً پانچ لاکھ چالیس ہزار تا آٹھ لاکھ پچاس ہزار نامعلوم وائرس موجود ہوتے ہیں، جو انسانوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ وائلڈ لائف ٹریڈ میں شامل میملز میں سے 26.5 فیصد ایسے ہوتے ہیں، جو معروف زونوٹک وائرس کے 75 فیصد کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ یہ شرح گھریلو یا غیر تجارتی جانوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
ہانا فوکس
ادارت: شکور خان