چینی جرمن اقتصادی تعلقات کے 40 سال
11 اکتوبر 2012یہ دائمی تغیر کی شکار ایک تاریخ ہے۔ 40 برس قبل وفاقی جمہوریہ جرمنی نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ آج یہ غیر مساوی پارٹنرز ایک دوسرے پر جتنا انحصار کرتے ہیں یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے دورہ روزہ دورے پر آج سے چین میں ہیں۔ اس دورے کا ایک اہم مقصد چالیس سال قبل دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کی یاد بھی تازہ کرنا ہے۔
یورپ کے قلب میں واقع نسبتا ایک چھوٹا صنعتی ملک، جو نازی ہٹلر کی فسطائیت اور جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک جی ڈی آر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی جیسے مضبوط ستونوں پر اپنے ملک کو دوبارہ کھڑا کرنے کا فخر رکھتا ہو۔ دوسری جانب ایک پارٹی کی آمریت اور ایک بلین سے زائد کی آبادی والا ملک جو ایک بر اعظم کے برابر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ چین اور جرمنی دو بالکل ہی مختلف خصوصیات کے حامل ایسے ممالک ہیں جن کی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی برابری نہیں، تب بھی 40 سال پہلے ان دونوں ممالک نے جس طرز کے باہمی تعلقات استوار کیے اُس کا خواب تک کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
جرمن چین شراکت کی بنیاد اقتصادی تعلقات ہیں۔ جس کا اعتراف جرمن پروفیسر سباستیان ہائلمن یوں کرتے ہیں،’’یہ خیال کہ جرمنی اور چین کے باہمی روابط کی اولین ترجیح اقتصادی تعلقات ہے، بالکل درست ہے۔ باقی تمام عوامل اس کے بعد آتے ہیں۔ دونوں کی طرف سے اقتصادی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ جرمنی چین کو وہ اشیاء فراہم کرتا ہے جس کی اُسی ضرورت ہے اور چین وہ تمام چیزیں مہیا کرتا ہے جن کی جرمنی کو ضرورت ہو سکتی ہے۔ ایک طرح سے صنعتی شعبے میں دونوں ممالک نے کام آپس میں بانٹ رکھے ہیں۔ جرمنی ہائی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ اور گراں قدر صنعتی اشیاء تیار کرتا ہے اور چین متوسط قیمتوں کی چیزیں ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کو فراہم کرتا ہے۔‘‘
1957ء میں دو طرفہ سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ہی وفاقی جمہوریہ جرمنی اور عوامی جمہوریہ چین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم یہ حکومتوں کے مابین طے نہیں پایا تھا بلکہ مشرقی جرمنی کی ایک اقتصادی کمیٹی اور چین کے ایک خارجہ تجارتی ادارے ccpit کے درمیان یہ طے پایا تھا۔ اُس وقت جرمنی کی طرف سے تجارتی معاہدہ اُس وقت کے وزیر صنعتOtto Wolff کی نگرانی میں طے پایا تھا۔
چین جرمن تعلقات کی بنیاد کس حد تک اقتصادی نوعیت کی ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس یعنی 2011 ء میں ان دونوں کے مابین 140 ارب یورو مالیت کی تجارت ہوئی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی یورپ کے اندر چین کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے اور تمام دنیا میں یورپ چین کے سب سے بڑے تجارتی ساتھی کی حیثیت رکھتا ہے۔
M.Hein/H.Spross/km/aba