چین، روس اور ایران کا تہران پر پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ
14 مارچ 2025چین، روس اورایران کے نمائندوں نے تہران پر امریکی پابندیاں ختم کیے جانے اور ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے کثیر القومی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان تینوں ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ آج چودہ مارچ بروز جمعہ سامنے آیا۔ یہ پیشرفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو بات چیت شروع کرنے کے لیے ایک خط لکھے جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔
یہ خط، جسے شائع نہیں کیا گیا، اس وقت لکھا گیا جب ٹرمپ نے اپنی''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ برقرار رکھنے کی مہم کے ایک حصے کے طور پر ایران پر نئی پابندیاں عائد کیں،جن میں تہران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان بھی موجود ہے اورساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا ہےکہ ایک نیا معاہدہ بھی طے پا سکتا ہے۔
بیجنگ میں جمعے کی صبح ملاقات کرنے والے تینوں ممالک کے نمائندوں نے ''تمام غیر قانونی، یکطرفہ پابندیاں ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘‘ چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤسو نے روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف اورایرانی نائب وزیر خارجہکاظم غریب آبادی کی موجودگی میں ایک مشترکہ بیان پڑھ کر سناتے ہوئے کہا، ''تینوں ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سیاسی اور سفارتی رابطہ کاری اور باہمی احترام کے اصول پر مبنی بات چیت ہی اس سلسلے میں واحد قابل عمل اور عملی آپشن ہے۔‘‘
قبل ازیں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ''غنڈہ گردی کرنے والی حکومت‘‘ کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتے، حالانکہ ایرانی حکام نے مذاکرات کے امکان پر متضاد اشارے دیے ہیں۔ ٹرمپ نے 2019 میں بھی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس کا دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ پر کوئی واضح اثر نہیں پڑا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان چین اور روس نے جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر 2015 کی ایران نیوکلیئر ڈیل کے ابتدائی فریم ورک معاہدے میں بھی حصہ لیا تھا۔
ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر دیا تھا، جس سے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر حملوں اور تناؤ کے برسوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ چین اور روس کے خاص طور پر توانائی کے معاہدوں کی صورت میں ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور ایران نے روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں بم بردار ڈرون بھی فراہم کیے ہیں۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے۔ تاہم، اس کے اہلکار جوہری ہتھیار بنانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ایران اب یورینیم کو 60 فیصد کے قریب تک افزودہ کر رہا ہے اور افزودگی کی یہ سطح مزید اضافے کے بعد جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ 2015ء کے جوہری معاہدے کے تحت، ایران کو صرف 3.67 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے اور 300 کلوگرام تک یورینیم ذخیرہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی آخری رپورٹ میں اس کا یورینیم کا ذخیرہ 8,294.4 کلوگرام بتایا گیا تھا۔ اگرچہ ایران زور دے رہا ہے کہ وہ دباؤ کے تحت بات چیت نہیں کرے گا، تاہم اس کی معیشت امریکی پابندیوں کی وجہ سے تباہ حال ہے۔ حالیہ برسوں میں خواتین کے حقوق، معیشت اور ایران میں ملائیت کے خلاف مظاہروں نے تہران میں کئی رجعت پسند حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
دوسری جانب چین مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مزید شمولیت کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے ایک سال قبل ان مذاکرات کی میزبانی کی تھی، جن کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی ممکن ہوئی تھی۔
ش ر⁄ م م (اے پی، اے ایف پی)