چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کی سعودی عرب میں شروعات؟
27 اگست 2025منگل کو بیجنگ میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں چین کے وزیر تجارت وانگ وینتاؤ نے سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح سے بات چیت کی ہے۔ اس اہم ملاقات میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ''وژن 2030‘‘ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
چین اور سعودی تعلقات میں نئی جہت
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب چین کو امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ جاری تجارتی تنازعات کا سامنا ہے، جنہوں نے اپنے بازاروں میں سستی چینی اشیا کی بھرمار کے خدشات کے پیش نظر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں۔
سعودی عرب کا ''وژن 2030‘‘ ایک جامع معاشی اور سماجی اصلاحاتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد اس مملکت کے تیل پر انحصار کو کم کرنا اور اسے ایک صنعتی طاقت کے طور پر ابھارنا ہے۔ دوسری جانب، چین کا ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ عالمی سطح پر انفراسٹرکچر اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک کلیدی حکمت عملی ہے۔ وانگ نے زور دیا کہ دونوں ممالک دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کے تعاون کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی اور صنعتی سپلائی چینز جیسے شعبوں میں تعاون کو وسعت دے سکتے ہیں۔
چین اور جی سی سی کے مابین معاہدے میں رکاوٹیں
چین اور جی سی سی، جو چھ خلیجی ممالک کا ایک اقتصادی بلاک ہے، کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کے مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔ سعودی عرب کو خدشہ ہے کہ سستی چینی درآمدات اس کے صنعتی عزائم کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ گزشتہ سال مئی میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب سمیت جی سی سی ممالک چینی اشیا کی بڑھتی ہوئی درآمدات سے اپنی مقامی صنعتوں کے تحفظ کے لیے فکرمند ہیں۔
سعودی بچوں کا چینی زبان سیکھنے کا سفر، مستقبل کی تیاری؟
اگرچہ تمام جی سی سی ممالک نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر تعاون کیا ہے لیکن سن 2023 میں اس اقدام کی دسویں سالگرہ کے موقع پر بیجنگ میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں کسی بھی خلیجی سربراہ مملکت کی عدم شرکت کو چین نے ایک سفارتی سردمہری کے طور پر دیکھا تھا۔
چین اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی توازن
سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو چین کے ساتھ تجارتی سرپلس برقرار رکھے ہوئے ہے۔ چینی کسٹمز ڈیٹا کے مطابق 2024ء میں سعودی عرب نے چین کو 57 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات کیں، جن میں سے 80 فیصد سے زائد تیل تھا۔ دوسری جانب چین نے گزشتہ سال سعودی عرب کو 50 ارب ڈالر سے زائد کی اشیا برآمد کیں، جن میں اسمارٹ فونز، سولر پینلز اور گاڑیاں سرفہرست ہیں۔
چین کی حکمت عملی اور عالمی تناظر
چین کے لیے خلیجی ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے، جب وہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تنازعات کا سامنا کر رہا ہے۔ دونوں بلاکس نے چینی اشیا پر ٹیرفس عائد کیے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ یہ اشیا کم قیمت کی وجہ سے ان کے بازاروں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس تناظر میں چین نئی منڈیوں کی تلاش اور اپنی معاشی سفارت کاری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا چین کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ جغرافیائی سیاسی اعتبار سے بھی اہم ہے۔ وانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون توانائی اور صنعتی شعبوں میں نئی راہیں کھول سکتا ہے، جو دونوں ممالک کے معاشی اہداف کے لیے سودمند ہو گا۔
چین اور سعودی عرب کے درمیان یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب دونوں ممالک اپنی معاشی حکمت عملیوں کو عالمی تبدیلیوں کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ چین عالمی تجارت میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے نئی شراکتیں تلاش کر رہا ہے۔ تاہم جی سی سی کے ساتھ ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے چین کو سعودی عرب کے تحفظات کو دور کرنا ہو گا، جو اپنی مقامی صنعتوں کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ