چاول کا نیا جین دریافت، 20 فیصد زیادہ پیداوار
23 اگست 2012چاول پر تحقیق کے لیے فلپائن میں قائم ادارے IRRI یعنی انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ نئی دریافت فوڈ سکیورٹی یعنی خوراک کے تحفظ کے سلسلے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گی کیونکہ اس کے نتیجے میں کم زرخیز زمینوں سے بھی زیادہ فصل حاصل کرتے ہوئے عالمی سطح پر چاول کی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے گی۔ ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ کاشتکاروں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔
چاول کے اس نئے جین کو PSTOL-1 یعنی فاسفورس سٹارویشن ٹالرینس وَن کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے باعث چاول کے پودے کی جڑوں کا ایک زیادہ بڑا اور بہتر نظام وجود میں آتا ہے، جو زیادہ مقدار میں فاسفورس جذب کر سکتا ہے۔
فلپائن میں قائم انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ فاسفورس کسی بھی پودے کی افزائش میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے تاہم محققین نے پتہ چلایا کہ کم زرخیز یا تیزابی زمینوں میں فاسفورس زیادہ تر زمین کے اندر ہی بند رہتا ہے اور پودوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔
براعظم ایشیا کے وسیع تر علاقے ایسے ہیں، جہاں کی زمینیں فاسفورس کی کمی کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کاشتکار فاسفورس کی حامل کھادیں استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ کھادوں کا نتیجہ ماحول پر کئی طرح کے منفی اثرات کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے۔
فلپائن میں قائم ادارے IRRI سے وابستہ ایک خاتون سائنسدان زیگفریڈ ہوئر نے بتایا کہ یہ جین بھارت سے درآمد کیے گئے چاول کی کاسالاتھ (Kasalath) نامی قسم سے الگ کیا گیا ہے۔ یہ چاول کی وہ قسم ہے، جو فاسفورس کی کمی کی شکار زمینوں پر کاشت کیا جاتا ہے۔
زیگفریڈ ہوئر نے اُس ٹیم کی قیادت بھی کی ہے، جس نے اس نئی دریافت کی تفصیلات سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع کی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا اور فلپائن میں اس جین کے حامل پودے سے اگائی گئی چاول کی آزمائشی فصل کے نتیجے میں اُس پودے کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ پیداوار حاصل ہوئی، جس میں یہ جین شامل نہیں تھا۔ اُنہوں نے گملوں میں کیے گئے تجربات کے حوالے سے مزید بتایا کہ فاسفورس کی کمی والی مٹی میں پیداوار میں 60 فیصد یا اُس سے بھی زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس ادارے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ انڈونیشیا میں سائنسدان اس جین کے حامل چاول کاشت کر رہے ہیں اور یوں اگلے چند برسوں کے اندر اندر چاول کی اِس نئی قسم کے بیج کاشتکاروں کو دستیاب ہو سکیں گے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ چاول کے پودوں کو جینیاتی تبدیلی کے عمل سے نہیں گزارا گیا بلکہ افزائش کی جدید ترین تکنیکس استعمال کرتے ہوئے نسل افزائی کی گئی ہے۔
اس ادارے کے مطابق یہ دریافت پودوں کی مختلف انواع کے تحفظ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اس ادارے کے ’جین بینک‘ میں چاول کی ایک لاکھ چودہ ہزار سے زیادہ اقسام کے بیج محفوظ ہیں۔
(aa/ab(dpa