پیرس کی شانزے لیزے پر بلیوں کے مجسمے
شانزے لیزے پر رکھے بلیوں کے مجسمے بیلجیم کے فن کار فیلیپ گیلوک کے شاہ کار ہیں۔ وہ ایسے بیس مجسمے بنا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران شائقین کے بغیر عجائب گھر ویران ہو چکے ہیں۔
باوقار بلی
فیلیپ گیلوک نے اس مجسمے کو اپنی ذات سے مشابہت دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مجسمے میں نظر آنے والی بلی کو تخلیق کرنا ایک مشکل امر تھا۔ انہوں نے مجسمے میں بلی ٹانگوں کی تراش خراش کو اپنی ایک عمدہ کاوش قرار دیا ہے۔
بیلجیم کی روح
مجسمہ ساز فیلیپ گیلوک کا کہنا ہے کہ اس مجسمے میں بیلجیم کی روح نے ایک بار پھر جنم لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیلجیم کو بہترین آب و ہوا اور بہت سارے ذخائر کے ساتھ شاندار ورثہ بھی درکار ہے۔ گیلوکے کے خیال میں بیلجیم کے لوگ انا کے بغیر اور عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔
بلی کا انتقام
گیلوک کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ کار نے بلی کو کچل دیا تھا اور اس کے بعد’کئی کاریں بلی‘ کے نیچے آ چکی ہیں۔ بیلجیم کے اس فنکار نے طنزیہ انداز میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کئی افراد نے حادثات کے ڈر سے اپنی کاریں چلاناچھوڑ دی ہیں کیونکہ انہیں اپنی جانیں عزیز ہیں۔ ان کا یہ بھی مقصد ہے کہ سڑکوں پر معصوم جانوروں اور خاص طور پر کسی بلی کو حادثے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
دیو مالائی روایت
یونانی دیو مالا کی روایت ہے کہ ٹایٹن اٹلس نے آفاقی کہکشاں تھام رکھی ہے اور دنیا کا کنٹرول ایک بلی کے کندھوں پر دھرا ہے۔ فیلیپ گیلوک کے تمام مجسمے رواں برس جون سے فرانسیسی شہروں میں نمائش کے لیے رکھے جائیں گے اور پھر انہیں اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ لے جایا جائے گا۔ یہ تمام مجسمے سن 2024 میں گیلوکے کے برسلز میں قائم ہونے والے ’کیٹ میوزیم‘ میں رکھ دیے جائیں گے۔
جیت کی حقدار
ہر بلی جیت کی حقدار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مقابلے میں کون ہے۔ پیرس کی مشہور شاہراہ پر مجسموں کی نمائش کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ دوسری جانب گیلوک نے اپنے مجسموں کی تخلیق کا خرچ برداشت کرنے کے لیے انہیں قبل از وقت فروخت بھی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مجسمہ تین لاکھ یورو کا ہے یعنی تین سو یورو فی کلو۔ ان کے سولہ مجسمے فروخت ہو چکے ہیں۔
بھاری وزن
انسان اپنا وزن کم کرنے کے لیے انواع و اقسام کی کوششیں کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی کوشش بلیوں کے مجسموں پر کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ شانزے لیزے میں رکھے گئے اس مجسمے کا وزن بھی بقیہ کی طرح قریب ایک ٹن ہے۔ تمام مجسمے اور ان کے لیے بنیادی سامان بیلجیم میں تیار کیا گیا۔
اب ڈاکٹر دیکھے گا!
اس بلی سے بیوقوف مت بنیں، اس نے صرف ڈاکٹر کا لباس پہن رکھا ہے۔ اس کی پشت پر کھانا کھانے والا کانٹا ہے تا کہ وہ کسی پرندے کا شکار کر کے اسے کھا سکے۔ گیلوک کے مطابق بلی بھی انسانوں کی طرح ایک کام کرنے کے بعد اس کا الٹ سوچتی ہے۔
میاؤں کافی نہیں
اس مجسمے میں گیلوک کی پسندیدہ بلی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ سنگتراش آگسٹے روڈین نے صرف ایک مجسمے کو سوچا تھا لیکن انہوں نے جس بلی کا مجسمہ بنایا ہے وہ بول بھی سکتی ہے۔
مرنے تک فن جاری رکھو
اس مجسمے کے ذریعے گیلوک نے شارلی ایبدو جریدے کے دفتر پر سن 2015 میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اس حملے میں مرنے والوں کی یاد میں اب بھی آنسو نکل پڑتے ہیں۔
کیٹ واک سے آگے
فیلیپ گیلوک کی شہرت بلی کے ان مجسموں کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ ان کے کامک البمز کی چودہ ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر فرانسیسی بولنے والے ممالک میں فروخت ہوئی ہیں۔ وہ پچھلے تیس سالوں سے کامک لکھ رہے ہیں۔ شانزے لیزے پر ان کے مجسموں کی نمائش رواں برس پانچ جون تک جاری رہے گی۔