پیرا ملٹری فوج تیس لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن بنائے: چیف جسٹس پاکستان
14 جولائی 2012سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے۔ بینچ کے دوسرے دو ججوں میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے بینچ نے بلوچستان فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سربراہ میجر جنرل عبید اللہ خٹک کو ہدایت کی ہے کہ وہ تیس لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن بناتے ہوئے انہیں چوبیس جولائی کو عدالت میں پیش کریں۔ عدالت کے مطابق لاپتہ افراد کے حوالے سے موقع اور واقعاتی شہادتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان افراد کے لاپتہ ہونے میں پیرا ملٹری فوج ملوث ہوسکتی ہے۔
تیس افراد فروری سن 2011 سے لاپتہ ہیں۔ ان افراد کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے ٹوٹک سے اغوا کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں اغوا اور لاپتہ افراد کے حوالے سے رونما ہونے والے واقعات کی بابت انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا خیال ہے کہ ایسے وقوعوں میں فوج کے خفیہ ادارے ملوث ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے عدالتی کارروائی کے دوران یہ آبزرویشن دی کہ یہ بلوچستان فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سربراہ کی ڈیوٹی ہے کہ وہ عدالتی حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنائیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے میجر جنرل عبید اللہ خٹک کی جانب سے لاپتہ افراد کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرنے سے جو معذوری ظاہر کی گئی تھی، اس کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ جو شہادتیں پیش کی گئی ہیں، ان کا اشارہ پیرا ملٹری اراکین کی جانب ہے۔ سپریم کورٹ کے بلوچستان کے مخدوش حالات و واقعات بارے سماعت کرنے والے بینچ کے ایک رکن جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالتی کارروائی کے دوران کہا کہ دو ہلاک ہونے والے قبائلیوں کی میڈیکل رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان کو انتہائی قریب سے فائر کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔ جسٹس خواجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فوج میں نامناسب اقدامات کرنے والے اہلکار موجود ہیں تو ان کو سامنے لانا ازحد ضروری ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کئی حوالوں سے محروم صوبہ ہے۔ یہ سرگرم افراد پیرا ملٹری اہلکاروں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ افراد کو زبردستی اغوا کرنے میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ زبردستی اٹھائے گئے افراد کو ماورائے عدالت جبر اور کئی مواقع پر ہلاکت کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق لاپتہ افراد صوبے میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک سے وابستگی کے شبے میں اٹھائے گئے ہیں۔ رواں برس فروری میں عدالتی حکم پر خفیہ اداروں کے قبضے سے سات افراد کی رہائی ممکن ہوئی تھی اور یہ افراد ڈیڑھ برس سے غیرقانونی حراست میں تھے۔
دوسری جانب پاکستانی عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں توہین عدالت کے منظور ہونے والے مسودہٴ قانون کے خلاف بلوچستان کے سینئر وکیل باز محمد کاکڑ کی اپیل منظور کرتے ہوئے اگلی پیشی کی تاریخ تیس جولائی مقرر کی ہے۔ عدالت اس قانون کے حوالے سے دائر ہونے والی تمام درخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے۔
ah/ska (AFP)