پی سی بی الیکشن: تاج خود ہی اپنے سر سجا لیا گیا
13 مئی 2013اس الیکشن کی نہ تو کسی کو کانوں کان خبر ہوئی، نہ ہی الیکشن کمیشن بنا، نہ شیڈول کا اعلان ہوا اور نہ ہی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز کو بورڈ کے نئے آئین کی ہوا لگنے دی گئی۔ اس پرطرہ یہ بھی کہ پی سی بی گورننگ بورڈ کے جس اجلاس میں ذکاء اشرف کا انتخاب کیا گیا، اس کے ایجنڈے میں الیکشن کا ذکر تک نہ تھا۔
سابق کپتان راشد لطیف نے ذکاء اشرف کے انتخاب کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے راشد لطیف کا کہنا تھا کہ ذکاء اشرف چار برس کے لیے خود ہی چیئرمین بن بیٹھے ہیں یہ ناجائز ہے۔ راشد کے بقول، ’’پی سی بی الیکشن میں سن 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جس کے تحت پہلے پارلیمنٹ اور پھر وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے، مگر یہاں موجودہ چیئرمین نے مستعفی ہوئے بغیر ہی گورننگ بورڈ کو نامزد کیا اور پھر گورننگ بورڈ نے ظاہر ہے کہ موجودہ چیئرمین کو نامزد کردیا‘‘۔
راشد لطیف کے مطابق، ’’پی سی بی کے آئین میں سکیورٹی ایڈوائزر اور ڈائریکٹر جنرل کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
آئی سی سی نے عالمی کرکٹ کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے تمام رکن ممالک کو جون 2013ء تک مہلت دی تھی، جس کے بعد پی سی بی کو اپنے 2007ء کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے چیئرمین کا انتخاب کرنا پڑا۔ تاہم اس سلسلے میں، جو انتخابی عمل اپنایا گیا، وہ کافی مضحکہ خیز تھا۔
پہلے مرحلے میں پی سی بی کے پیٹرن صدر پاکستان نے ایک کی بجائے دو امیدواروں کو نامزد کیا جبکہ دوسرے مرحلے میں موجودہ چیئرمین کی من پسند نامزد کمیٹی نے خود ذکاء اشرف کے نام کی سفارش کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاڑکانہ اور ڈیرہ مراد جمالی ﴿جہاں کرکٹ کا کلچر ہی نہیں﴾ جیسے علاقوں سے تعلق رکھنے والے،جن اراکین کو ذکاء اشرف نے صرف ایک برس کے لیے گورننگ بورڈ میں نامزد کیا، انہوں نے ذکاء اشرف کو ہی چار برس کے لیے چیئرمین کا عہدہ سونپ دیا۔
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف کرنل رفیع نسیم نے اس انتخابی عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا، ’’پی سی بی نے اس الیکشن کو شروع سے آخر تک خفیہ رکھا۔ جب کسی دوسرے امیدوار کو مقابلے کا موقع ہی نہ ملے تو وہ الیکشن کس طرح منصفانہ ہو سکتا ہے؟ صدر مملکت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پی سی بی نے آئی سی سی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے اعتراف کیا کہ جس نئے آئین کے تحت انہوں نے الیکشن کرایا وہ جمہوری نہیں بلکہ نمائندہ آئین ہے۔ اگر مسٹر ذکاء اشرف کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر الیکشن کے عمل سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور سب سے بڑے شہر کراچی کو نمائندگی سے کیوں محروم رکھا گیا ؟ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس الیکشن کے خلاف آواز اٹھانے پر عام انتخابات سے چند گھنٹے پہلے سیالکوٹ اور فیصل آباد کے ساتھ ساتھ لاہور اور ایبٹ آباد کی کرکٹ ایسوسی ایشنز پر شب خون مارتے ہوئے ایڈہاک لگا دی گئی۔
چیئرمین پی سی بی چوہدری ذکاء اشرف اپنے انتخاب کے بعد سے شدید دباؤ میں ہیں۔ اس لیے الیکشن کے بعد ہونیوالی پریس کانفرنس میں بھی وہ کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان کے انداز و اطوار ﴿باڈی لینگوئج﴾ پہلی بار کمزور دکھائی دیے۔
پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے بورڈ کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ الیکشن کو خفیہ رکھنے کا تاثر درست نہیں اور عام انتخابات کے ساتھ چیئرمین کے الیکشن کا انعقاد محض حسن اتفاق ہے۔
ذکاء اشرف صدر زرداری کے دست راست مانے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے مبینہ الیکشن کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا، جب ان کے سیاسی مخالف میاں نواز شریف کے لیے وزارت عظمیٰ کی شیروانی تیارہو رہی ہے۔
رپورٹ:طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد