پچیس ممالک نے امریکہ کے لیے پوسٹل سروسز معطل کر دیں
27 اگست 2025ٹرمپ انتظامیہ نے پچھلے ماہ کے آخر میں اعلان کیا تھا کہ 29 اگست سے امریکہ آنے والے چھوٹے پوسٹل پیکجز پر ٹیکس چھوٹ ختم کر دی جائے گی۔
اس اقدام کے نتیجے میں کئی ممالک، جن میں فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں، نے یہ اعلان کیا کہ اب زیادہ تر امریکی پتے پر جانے والے پوسٹل پیکٹس قبول نہیں کیے جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے یونیورسل پوسٹل یونین(یو پی یو) نے کہا کہ اسے پہلے ہی 25 رکن ممالک نے آگاہ کر دیا ہے کہ ان کی پوسٹل خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے ''غیر یقینی صورتحال کے باعث امریکہ کے لیے اپنی برآمدی ڈاک خدمات، خاص طور پر ٹرانزٹ سے متعلق خدمات، معطل کر دی ہیں۔‘‘
یونین نے کہا کہ یہ معطلی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک امریکی حکام کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات پر عمل درآمد کا واضح طریقہ سامنے نہیں آتا۔
بڑی آپریشنل تبدیلیوں کا امکان
یو پی یو نے کہا ہے کہ اگرچہ امریکہ کو اپنی کسٹم پالیسیاں طے کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس فیصلے سے دنیا بھر میں ڈاک کی ترسیل کے عمل میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔
اٹھارہ سو چوہتر میں قائم ہونے والی یہ تنظیم، جس کے 192 رکن ممالک ہیں، کو نئی کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی اور ادائیگی کے طریقہ کار سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دے رہی ہے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے امریکی حکومت سے رابطے میں ہے۔
یو پی یو نے کہا کہ ان اقدامات کے تحت جمعہ سے، امریکہ میں پیکیج فراہم کرنے والے ڈاک رسانوں پر امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی کی ہدایت پر، پیکیج بھیجنے والوں سے پیشگی کسٹم ڈیوٹی وصول کرنا لازم ہوگا۔‘‘
بھارت کی وزارت مواصلات نے گزشتہ دنوں کہا کہ ٹرمپ کے پچھلے ماہ جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ٹرانسپورٹ بردار یا دیگر 'اہل فریقین‘ جنہیں امریکی حکام نے منظور کیا ہو، کو ڈیوٹی کی وصولی اور ترسیل کرنی ہو گی۔
وزارت نے بیان میں کہا کہ لیکن 'اہل فریقین‘ کے تعین اور ڈیوٹی وصولی و ترسیل کے طریقہ کار سے متعلق کئی اہم امور اب بھی واضح نہیں ہیں۔
کتنی مالیت تک پر ٹیکس دینا ہو گا
امریکہ کے نئے اقدامات کے تحت انفرادی صارفین اب بھی 100 ڈالر تک کی مالیت کے کاغذات اور تحائف امریکہ بھیج سکیں گے جن پر ٹیکس نہیں لگے گا۔
لیکن اس سے زیادہ مالیت کی اشیاء پر بھیجنے والے ملک کی دیگر درآمدات پر لاگو ہونے والی ہی شرح محصولات لاگو ہو گی۔
اس کا مطلب ہے یورپی یونین کے ممالک کے لیے یہ 15 فیصد اور بھارت کے لیے 50 فیصد ہو گا۔
جرمنی کی ڈاک کمپنی ڈی ایچ ایل نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ حتیٰ کہ مستثنیٰ اشیاء بھی اضافی جانچ کے عمل سے گزریں گی تاکہ اس سروس کو تجارتی سامان بھیجنے کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔
یو پی یو نے زور دیا کہ وہ اپنے رکن ممالک کو ممکنہ اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے کے خاطر تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔
یو پی یو کے سربراہ، مساہیکو میتوکی، نے پیر کو امریکی وزیرِ خارجہ، مارکو روبیو، کو خط لکھ کر، ان آپریشنل رکاوٹوں سے متعلق رکن ممالک کی تشویش سے آگاہ کیا۔
یونین نے کہا کہ وہ ''متعلقہ امریکی حکام کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ اقدامات کی عملی ضروریات سے متعلق معلومات مؤثر طریقے سے دیگر رکن ممالک تک پہنچائی جا سکیں۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ