15 اگست کو الاسکا میں پوٹن سے ملوں گا، ٹرمپ
وقت اشاعت 9 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 9 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- اسرائیل کو اسلحہ برآمدات کی معطلی پر جرمنی کی کنزرویٹیو پارٹی نے ہنگامی اجلاس بلا لیا
- غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کے منصوبے کے خلاف مسلم ممالک کو متحد ہونا ہوگا، ترکی
- آرمینیا - آذربائیجان امن معاہدہ، ایران کا ’غیر ملکی مداخلت‘ پر انتباہ
- مئی کے تصادم میں پاکستان کے چھ فوجی طیارے مار گرائے، بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا دعویٰ
- ناگاساکی پر جوہری بم گرانے کے 80 برس، خصوصی تقریب
- امریکی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی معاہدہ
- زیلسنکی نے یوکرینی علاقے چھوڑنے سے انکار کر دیا
- 15 اگست کو الاسکا میں پوٹن سے ملوں گا، ٹرمپ
ادارت: کشور مصطفیٰ
اسرائیل کو اسلحہ برآمدات کی معطلی پر جرمنی کی کنزرویٹیو پارٹی نے ہنگامی اجلاس بلا لیا
جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے فیصلے نے ان کی اپنی حکمران قدامت پسند جماعت سی ڈی یو میں دراڑیں واضح کر دی ہیں، جس کے بعد ان کے خارجہ امور کی ورکنگ گروپ نے اتوار کو ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اس جماعت کے پارلیمانی گروپ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ خارجہ پالیسی کے ماہرین اسرائیل کے حوالے سے اس نئی تبدیلی پر تبادلہ خیال کریں گے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ میٹنگز کسی اہم پیش رفت کے بعد معمول کی بات ہوتی ہیں، لیکن موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران اتوار کو بلایا گیا یہ فوری اجلاس اس مسئلے کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔
فریڈرش میرس نے، جو رواں برس مئی میں چانسلر بنے، جمعہ کو اعلان کیا تھا کہ جرمنی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان کی برآمدات روک دے گا جو 22 ماہ سے جاری غزہ کی پٹی کی مہم میں استعمال ہو سکتا ہے۔ یہ اقدام، جو اسرائیل کے قریب ترین اتحادیوں میں سے ایک (جرمنی ) کے لیے ایک بڑی تبدیلی ہے، اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر پر ایک نئے حملے کی منصوبہ بندی کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے، جو تباہ شدہ فلسطینی علاقے کا سب سے بڑا شہری مرکز ہے۔
میرس نے غزہ کی شہری آبادی پر حملے کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس آپریشن سے اسرائیل کے لیے اپنے جنگی اہداف حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ اس اقدام کی حمایت وائس چانسلر لارس کلنگبائیل نے بھی کی، جو میرس کی جونیئر اتحادی اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ہیں۔
تاہم، میرس کی اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (CDU) اور صوبہ باویریا میں اس کی ساتھی جماعت، کرسچن سوشل یونین (CSU) میں واضح تقسیم نظر آرہی ہے۔ CDU کے قانون ساز اور خارجہ پالیسی کے ماہر نوربرٹ روٹگن نے آج ہفتہ نو اگست کو اخبار ’رائینشے پوسٹ‘ سے بات کرتے ہوئے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے فیصلے کی حمایت کی، ’’یہ ردعمل بالکل درست ہے اور بدقسمتی سے اسرائیلی حکومت کے تازہ ترین فیصلوں کی وجہ سے ناگزیر ہو گیا تھا۔‘‘
دوسری جانب، ان کے پارٹی کے ساتھی کارسٹن مؤلر نے ایکس پر لکھا کہ وہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی ’’سخت ترین الفاظ میں مذمت‘‘ کرتے ہیں۔ CDU کی یوتھ ونگ نے اس اقدام کو پارٹی کے اصولوں سے ’’انحراف‘‘ قرار دیا، جبکہ خارجہ پالیسی ورکنگ گروپ کے ڈپٹی چیئرمین، سینئر قانون ساز روڈرش کیزیویٹر نے اسے ’’جرمنی کی سنگین سیاسی اور تزویراتی غلطی‘‘ قرار دیا۔
غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کے منصوبے کے خلاف مسلم ممالک کو متحد ہونا ہوگا، ترکی
ترکی نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف مسلم دنیا کو متحد ہو کر عالمی برادری کو متحرک کرنا ہوگا۔ دریں اثناء 20 کے قریب مسلم ممالک نے غزہ شہر پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کی ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے آج ہفتہ نو اگست کو مصر میں مذاکرات کے بعد کہا کہ غزہ شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف مسلم دنیا کو متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے بعد اپنے مصری ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔
ادھر متعدد عرب اور مسلم ممالک نے غزہ سٹی کا کنٹرول حاصل کرنے کے اسرائیل کے منصوبے کو ’خطرناک پیشرفت‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مصر، سعودی عرب اور ترکی سمیت تقریبا 20 ممالک کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، غیر قانونی قبضے کی کوشش اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قانونی حیثیت کی بھی خلاف ورزی ہے۔
آرمینیا - آذربائیجان امن معاہدہ، ایران کا خیرمقدم، مگر ’غیر ملکی مداخلت‘ پر انتباہ
ایران کی وزارت خارجہ نے امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے آرمینیا اور آذربائیجان کے امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم اس معاہدے میں ایرانی سرحد کے قریب امریکہ کو حاصل ہونے والے ترقیاتی حقوق پر ’غیر ملکی مداخلت‘ کے خلاف خبردار کیا ہے۔
جمعہ کے روز آرمینیائی وزیر اعظم نکول پیشینیان اور آذربائیجانی صدر الہام علییف نے وائٹ ہاؤس میں اس امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں آرمینیا کے راستے ایک ٹرانزٹ کوریڈور کی تشکیل بھی شامل ہے جو آذربائیجان کو اس کی الگ تھلگ ریاست نخچیوان سے جوڑے گا۔ یہ آذربائیجان کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔
امریکہ کو اس کوریڈور میں، جسے ’’ٹرمپ روٹ فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپیریٹی‘‘(TRIPP) کا نام دیا گیا ہے، ترقیاتی حقوق حاصل ہوں گے۔ یہ کوریڈور اسٹریٹجک اہمیت کے حامل اور وسائل سے مالا مال خطے میں واقع ہے۔
ایران اس کوریڈور کی، جسے اکثر زنگیزور کوریڈور بھی کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے مخالفت کرتا رہا ہے۔ ایران کو خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے وہ قفقاز سے کٹ جائے گا اور اس کی سرحدوں پر غیر ملکی موجودگی بڑھ جائے گی۔
ایک بیان میں، ایران کی وزارت خارجہ نے ’’دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کے حتمی متن‘‘ کا خیرمقدم کیا، لیکن ’’کسی بھی طرح اور کسی بھی شکل میں غیر ملکی مداخلت کے منفی نتائج، خصوصاً مشترکہ سرحدوں کے قریب‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزارت نے مزید کہا کہ اس طرح کا اقدام ’’خطے کی سلامتی اور دیرپا استحکام کو نقصان پہنچائے گا۔‘‘
قبل ازیں پیر چار اگست کو، ایران کے سپریم لیڈر کے سینئر مشیر علی اکبر ولایتی نے خبردار کیا کہ اگر علاقائی یا بیرونی طاقتوں نے زنگیزور کوریڈور کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو انہیں ایران کی جانب سے ’’سخت ردعمل‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’میں یاد دلانا چاہوں گا کہ اس خطے یا اس سے باہر کی کوئی بھی حکومت جو پہلے کی ناکام کوشش کو دہرانا چاہتی ہے، اسے ایران کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
مئی کے تصادم میں پاکستان کے چھ فوجی طیارے مار گرائے، بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا دعویٰ
بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے آج بروز ہفتہ انکشاف کیا ہے کہ مئی میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں کے دوران بھارتی فضائیہ نے پانچ پاکستانی لڑاکا طیارے اور ایک دیگر فوجی طیارہ مار گرایا۔ یہ بیان کسی بھی اعلیٰ بھارتی فوجی عہدیدار کی جانب سے دونوں ہمسایہ جوہری طاقتوں کے درمیان دہائیوں کے بدترین فوجی تنازع کے چند ماہ بعد پہلی مرتبہ دیا گیا ہے۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے جنوبی شہر بنگلورو میں ایک تقریب کے دوران بتایا کہ زیادہ تر پاکستانی طیارے روسی ساختہ ایس-400 زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نظام کی مدد سے گرائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کی تصدیق الیکٹرانک ٹریکنگ ڈیٹا سے ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس کم از کم پانچ لڑاکا طیاروں کی تباہی کی تصدیق موجود ہے اور ایک بڑا فوجی طیارہ بھی گرایا گیا۔‘‘ ان کے مطابق یہ بڑا طیارہ ممکنہ طور پر ایک نگرانی کرنے والا جہاز تھا، جسے 300 کلومیٹر (186 میل) کے فاصلے پر نشانہ بنایا گیا۔
ایئر چیف مارشل سنگھ نے مزید کہا، ’’یہ سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے ذریعے کی جانے والی سب سے بڑی کارروائی ہے جو اب تک ریکارڈ کی گئی ہے،‘‘ جس پر وہاں موجود حاضر سروس افسران، سابق فوجی اہلکاروں اور حکومتی و صنعتی شخصیات نے تالیاں بجا کر داد دی۔
پاکستانی فوج کی جانب سے فوری طور پر اس دعوے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ایئر چیف سنگھ نے ان لڑاکا طیاروں کی اقسام کا ذکر نہیں کیا، جنہیں مبینہ طور پر گرایا گیا۔
پاکستان، جس کی فضائیہ زیادہ تر چینی ساختہ طیاروں اور امریکی ایف-16 پر مشتمل ہے، اس سے قبل بھارت کے ایسے کسی بھی دعوے کو مسترد کر چکا ہے کہ مئی 7 تا 10 کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اس کے کوئی طیارے تباہ کیے گئے۔
دوسری جانب پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان جھڑپوں میں بھارت کے چھ طیارے مار گرائے، جن میں ایک فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل ہے۔ بھارت نے بعض نقصانات کا اعتراف تو کیا ہے تاہم چھ طیاروں کے نقصان کی تردید کی ہے۔
فرانس کے فضائیہ کے سربراہ جنرل جیروم بیلونژے اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ انہیں بھارتی فضائیہ کے تین طیاروں، جن میں ایک رافیل بھی شامل ہے، کی تباہی کے شواہد ملے ہیں۔ بھارتی فضائیہ نے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ناگاساکی پر جوہری بم گرانے کے 80 برس، خصوصی تقریب
جاپانی شہر ناگاساکی میں 80 سال بعد پہلی بار جڑواں گرجا گھروں کی گھنٹیاں بیک وقت بجائی گئیں، جس کا مقصد ایٹمی حملے کے خوفناک لمحے کی یاد تازہ کرنا تھا۔
یہ گھنٹیاں نو اگست 1945 کو مقامی وقت صبح 11:02 پر امریکہ کی طرف سے ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کی یاد میں بجائی گئیں۔ اس سے تین روز قبل امریکہ نے ہیروشیما پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
آج ہفتے کی صبح ہونے والی تیز بارش تھمنے کے فوراً بعد ’’مومنٹ آف سائلنس‘ اور ایک خصوصی تقریب کا انعقاد ہوا۔ ناگاساکی کے میئر شِرو سوزوکی نے اس موقع پر دنیا سے فوری طور پر تمام مسلح تنازعات روکنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، ’’80 سال گزر چکے ہیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا کا یہ حال ہو جائے گا۔ ایک جوہری جنگ جیسے بحران، جو انسانیت کے وجود کو خطرہ بنا سکتے ہیں، ہر اس شخص پر منڈلا رہے ہیں جو اس سیارے پر زندہ ہے۔‘‘
ناگا ساکی پر جوہری حملے میں تقریباً 74,000 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ ہیروشیما میں 140,000 افراد کی جانیں گئی تھیں۔ اس حملے کے چند دن بعد، 15 اگست 1945 کو، جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔
مؤرخین اس بات پر بحث کرتے رہے ہیں کہ کیا ان جوہری حملوں نے جنگ کو ختم کر کے درحقیقت انسانی جانیں بچائی تھیں۔ تاہم، زندہ بچ جانے والوں کے لیے یہ حقائق کوئی معنی نہیں رکھتے تھے، جن میں سے بہت سے لوگوں کو دہائیوں تک جسمانی اور نفسیاتی صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
آرمینیا اور آذربائیجان نے ہمیشہ کے لیے لڑائی ختم کرنے کا عہد کر لیا، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی قفقاز کے دو حریف ممالک آرمینیا اور آذربائیجان نے کئی دہائیوں کے تنازعے کے بعد ایک دیرپا امن کا عہد کیا ہے۔
ٹرمپ نے یہ بات ان دونوں ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے ایک معاہدے پر دستخط کے بعد کہی گئی۔ اس معاہدے کا ایران اور مغربی ممالک کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔
آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پیشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے کہا کہ ٹرمپ کی ثالثی پر انہیں امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے، ایک ایسا ایوارڈ جس کے لیے امریکی صدر خود بھی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جمعے کے روز منعقد ہونے والی تقریب میں کہا کہ دونوں سابق سوویت جمہوریائیں ’’ہمیشہ کے لیے تمام لڑائیاں روکنے، تجارت، سفر اور سفارتی تعلقات کو کھولنے اور ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کا عہد کر رہی ہیں۔‘‘
تاہم ان دیرینہ حریف ممالک کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی تفصیلات ابھی تک غیر واضح ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ’’بہت اچھے تعلقات‘‘ ہوں گے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ’’لیکن اگر کوئی تنازعہ ہوتا ہے... تو وہ مجھے فون کریں گے اور ہم اسے حل کر لیں گے۔‘‘
مسیحی اکثریت والا ملک آرمینیا اور مسلم اکثریت والا ملک آذربائیجان کئی دہائیوں سے اپنی سرحد اور ایک دوسرے کے علاقوں میں نسلی انکلیوز کی حیثیت پر جھگڑتے رہے ہیں۔
انہوں نے متنازعہ کاراباخ خطے پر دو بار جنگ لڑی، جسے آذربائیجان نے 2023 میں ہونے والی جنگ میں آرمینیائی افواج سے دوبارہ حاصل کر لیا۔ ان جنگوں کے سبب 100,000 سے زیادہ نسلی آرمینیائی افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
یوکرین اپنے علاقے حملہ آور کو تحفے میں نہیں دے گا، زیلنسکی
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے علاقائی رعایتیں دینے سے انکار کر دیا ہے، اور اس سلسلے میں ملک کے آئین کا حوالہ دیا ہے۔
یوکرینی صدر کے دفتر سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں زیلنسکی نے کہا، ’’یوکرینی اپنی سرزمین حملہ آور کو تحفے میں نہیں دیں گے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’یوکرین کے علاقائی مسئلے کا حل پہلے ہی یوکرین کے آئین میں موجود ہے۔ کوئی بھی اس سے انحراف نہیں کرے گا۔‘‘
یوکرینی صدر نے اپنے اس پیغام میں مزید کہا، ’’یوکرین ایسے حقیقی فیصلوں کے لیے تیار ہے جو امن لا سکیں۔ کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ہمارے خلاف ہو، یوکرین کے بغیر ہو، وہ درحقیقت امن کے خلاف ہے۔‘‘
انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان علاقائی رعایتوں پر مبنی جنگ بندی کے منصوبوں کے بارے میں میڈیا رپورٹس کو ’’ناقابل عمل فیصلے‘‘ قرار دیا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے مشرقی علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک پر مکمل روسی کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے، جسے زیلنسکی نے ہزاروں مربع کلومیٹر اور اسٹریٹيجک طور پر اہم شہروں کو روس کے حوالے کرنے کے مترادف قرار دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں، ایک ’’بہت پیچیدہ‘‘ معاہدے کے تحت علاقے ’’ایک دوسرے کو دینے‘‘ کی بات کی لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ امریکی صدر 15 اگست کو الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
زیلنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ان کے ملک میں جاری جنگ سے بہت دور ہے، اور کہا کہ یوکرینیوں کے بغیر اس تنازعے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یوکرین فروری 2022ء سے روسی حملے کا مقابلہ کر رہا ہے۔
پوٹن سے الاسکا میں 15 اگست کو ملاقات ہو گی، امریکی صدر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے 15 اگست کو امریکی ریاست الاسکا میں ملاقات کریں گے۔ پوٹن نے ملاقات کے ممکنہ مقام کے طور پر متحدہ عرب امارات کا نام تجویز کیا تھا۔
ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میری اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی ملاقات اگلے جمعہ 15 اگست 2025 کو الاسکا کی عظیم ریاست میں ہوگی۔ مزید تفصیلات بعد میں جاری ہوں گی۔‘‘
روسی صدر پوٹن نے جمعرات سات اگست کو یوکرین جنگ پر ٹرمپ کے ساتھ مجوزہ ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے سربراہی اجلاس کے ممکنہ مقام کے طور پر متحدہ عرب امارات کا نام تجویز کیا تھا۔
2021ء کے بعد کسی برسر اقتدار امریکی صدر اور پوٹن کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہوگی۔ تب جو بائیڈن نے جنیوا میں پوٹن سے ملاقات کی تھی۔
روس تین سال سے زائد عرصے سے یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ بار بار اس جنگ کو جلد ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جمعہ آٹھ اگست کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ یوکرین اور روس ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے معاہدے کے حصے کے طور پر علاقے کے کچھ حصوں کا تبادلہ کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پہلے پوٹن سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پھر بات چیت کو یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ سہ فریقی ملاقات میں توسیع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم کریملن نے پوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کے روز پوٹن نے کہا تھا کہ وہ زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے شرائط ابھی پوری نہیں ہوئیں۔
پوٹن نے اپنی شرائط کا ذکر نہیں کیا لیکن اس سے قبل کریملن نے اصرار کیا تھا کہ یوکرین ان علاقوں کو چھوڑ دے جن پر روس کا قبضہ ہے، بشمول کریمیا جسے اس نے 2014ء میں روس کے ساتھ ضم کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ مغربی ممالک یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دیں اور وہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دیں۔
زیلنسکی اور ان کے یورپی اتحادیوں نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔