’پناہ کی تلاش کے آخری مسافر کی کہانی‘
23 جنوری 201322 سالہ حبیب اللہ اب انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے حراستی مرکز میں قید اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔
حبیب اللہ اور اس کے 33 ساتھی گزشتہ اکتوبر میں ایک چھوٹی کشتی میں سوار آسٹریلیا میں پناہ کے لیے قسمت آزمانے جا رہے تھے جب ان کی کشتی ڈوب گئی۔ حبیب اللہ کے سوا اس کے تمام ساتھی بحر ہند کے پانیوں کی نذر ہو گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے حبیب اللہ نے ان مشکل لمحوں کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’’بارش اور تیز ہوائیں تھیں اور دوسری رات طوفان بھی آگیا ہم پینڈولم کی طرح جھول رہے تھے۔‘‘
حبیب اللہ نے مزید کہا: ’’صبح ہم نے دیکھا کہ ہمارے ساتھیوں کی لاشیں کشتی کے ارد گرد پانی میں تیر رہی تھیں۔‘‘
26 اکتوبر کو انڈونیشیا کے جزیرے جاوا سے آسٹریلین جزیرے کرسمس کے سفر پر روانہ ہونے والی چھوٹی کشتی کے انجن نے چند گھنٹوں بعد کام کرنا چھوڑ دیا اور ایک دن بعد سمندر میں ڈوب گئی۔
حبیب اللہ نے ان جذباتی مناظر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ رسی کو سب نے تھام رکھا تھا لیکن ایک ایک کر کے سب کے ہاتھ رسی سے چھوٹتے جا رہے تھے اور وہ بھی مرنے کےلیے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا لیکن رسی پر اس کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی اور چار دن بغیر کچھ کھائے پیے سمندر میں رہا۔
حبیب اللہ نے بتایا کہ وہ افغانستان میں بد امنی اور تشدد کی فضا سے بچنے کےلیے پاکستان کے شہر کراچی پہنچا لیکن وہاں بھی اسے شیعہ ہونے کے باعث ہر وقت جان کا خطرہ رہتا تھا۔ وہ انسانی سمگلر کو تقریباﹰ 10 ہزار یورو ادا کر کے آسٹریلیا میں امن اور خوشحالی کی تلاش کےلیے نکلا تھا جو موت کے پانیوں کا شکار ہونے سے بڑی مشکل سے بچا۔
حبیب اللہ کہتے ہیں کہ جب ان کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تو انہیں امید تھی کہ کوئی نہ کوئی انہیں بچانے کےلیے ضرور آئے گا، پاس سے کچھ جہاز اور ماہی گیروں کی کشتیاں گزریں تو انہوں نے بھی ہماری چیخ و پکار پر کان نہ دھرے۔ اور اس طرح بچنے کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔’ مجھے میری ماں کی وہ بات یاد آنے لگی جب الوداع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اپنا بہت بہت خیال رکھنا اورسفر اگر بہت مشکل ہے تو تمہیں نہیں جانا چاہیے ‘۔
کشتی کے ڈوبنے کے چوتھے روز پاس سے گزرتے ماہی گیروں کی حبیب اللہ پر نظر پڑی تو وہ اس کو اٹھا کے کنارے پر لے آئے اس کی قسمت اب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے ہاتھ میں ہے جو اسے کسی تیسرے ملک میں پناہ گزین کے طور پر بھیجنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما عمل ہے جس کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔ حبیب اللہ اب بھی پر امید ہے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے گا: ’ میری آئیڈیل جگہ وہ ہے جہاں میں کسی قسم کی تفریق اور تشدد کے بغیر رہ سکوں‘۔
rh/aa(AFP)