پاکستانی کھیل، عہدوں کی جنگ کا شکار
5 فروری 2013قومی اسپورٹس پالیسی کے نفاذ کی مخالفت پر پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پاکستان اولمپک ایسو سی ایشن پر ایڈہاک لگا دی ہے اور حال ہی میں لاہور میں ہونیوالے قومی کھیلوں کوبھی کالعدم قرار دے کرانہیں دوبارہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ نے قومی اسپورٹس پالیسی کی منظوری 2005ء میں دی تھی جس کے مطابق ملکی کھیلوں کی فیڈرشینز میں تیسری مدت کے لیے عہدیدار بننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تاہم پالیسی کی اسی شق کے اطلاق کی راہ میں کھیلوں کی تنظیموں کے سالہا سال سے چلے آرہے عہدیدار رکاوٹ بن رہے ہیں۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ﴿پی او اے﴾ کے نائب صدر ادریس حیدر خواجہ اس امر سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ پی او اے بین اقومی اولمپک کمیٹی کے چارٹر کی پابند ہے جس میں کہیں بھی تیسری مدت کے لیے عہدیدار بننے پرپابندی نہیں مگر یہاں یہ پالیسی ہم پر ٹھونسی جا رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’اولمپک چارٹر میں یہ واضح ہے کہ کسی ملک میں حکومت کھیلوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، اس کا کام فنڈز کی فراہمی ہے۔ لندن اولمپکس میں برطانوی حکومت نے اربوں پاونڈز انفراسٹرکچر پر خرچ کیے مگر تمام ایونٹ برطانوی اولمپک کمیٹی کی نگرانی میں ہوا۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں پاکستان اسپورٹس بورڈ کو انفراسٹرچکر کی تو فکر نہیں اور کھیل میں سیاست کو فروغ دینے میں وہ پیش پیش ہے۔‘‘
ادریس حیدر خواجہ نے بتایا کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کا دوہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے، ایک طرف وہ تیسری مدت کا مخالف ہے اوردوسری جانب پاکستان جمناسٹک فیڈریشن کے اس صدر اور سیکرٹری کا حامی ہے جو 20، 20 سالوں سے اپنے عہدوں پر جمے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسپورٹس بورڈ کھیلوں کی متوازی فیڈرشینز تشکیل دے رہا ہے جو خطرناک رجحان ہے۔
اس محاذ آرائی کے باعث لاہور میں ہونے والے حالیہ قومی کھیلوں میں پاکستان آرمی، نیوی اور فضائیہ کے کھلاڑی شرکت سے محروم رہے۔ حیران کن طور پر پاکستان آرمی نے پاکستان اولمپک ایسو سی ایشن کے منتظیمن کو وہ روایتی قائد اعظم ٹرافی بھی لوٹانے سے انکار کردیا جو بابا قوم نے خود قومی کھیلوں کے لیے اپنی جیب سے تیار کروائی تھی۔ پی او اے نے متبادل ٹرافی نئے چمپئن واپڈا کو دی۔
اس صورتحال کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سرکردہ ایتھلیٹس کا تعلق پاکستانی فوج سے ہے مگر اب بین الاقوامی مقابلوں میں دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے دوسرے درجے کے وہی ایتھلیٹس پاکستان کی نمائندگی کے اہل ہوں گے جنہوں نے حالیہ قومی کھیلوں میں میدان مارا۔
حکومت اور منتظمین میں جاری اس رسہ کشی کے باعث لاہور میں سائیکلنگ ویلوڈرم، سوئمنگ پول اور جمنازیم کی تعمیر شروع کر کے کروڑوں کے منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے۔
سابق اولمپئن توقیر ڈار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی اسپورٹس پر ایک مافیا قبضہ کر چکا ہے اوردوسرا مافیا اب یہ قبضہ چھڑوانا چاہ رہا ہے۔ توقیر ڈار جو 1984ء کے اولمپک کی فاتح پاکستان ہاکی ٹیم کے رکن تھے، کہا کہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کی عرصہ دراز سے اسپورٹس فیڈرشنز پر اجارہ داری ہے اور غیر ملکی دورے کرنے اور سیاست کرنے کےعلاوہ ان کا کوئی اور مطمع نظر نہیں ہے۔
ڈار کے بقول چیف جسٹس آف پاکستان کو اس صورتحال کا از خود نوٹس لینا چاہیے اور عمران خان جیسے شخص کو سیاست میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کھیلوں کی بہتری کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔
ہاکی کے ایک اور سابق اولمپئن خواجہ جنید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیمی ادارے کھیلوں کی سب سے بڑی نرسری تھے مگر اسپورٹس پالیسی پرعمل نہ ہونے سے اسکولوں اور کالجوں میں کھیلوں کی بنیاد پر داخلوں کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ جنید کے مطابق اس کی بحالی کی خاطر اسپورٹس پالیسی کا نفاذ ہر صورت میں ہونا چاہیے۔
کھیلوں کے تجزیہ کار سہیل عمران نے خبردار کیا کہ اگر عہدوں کی یہ جنگ جاری رہی تو بھارت کی طرح انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی 15 فروری کو ہونے والے اپنے اجلاس میں پاکستان کی بھی رکنیت معطل کرسکتی ہے۔
پاکستانی کھیلوں میں عہدوں کی یہ جنگ گز شتہ برس پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں فوج کے ایک سابق جرنیل عارف حسن کے ہاتھوں ایک اور سابق جرنیل اکرم ساہی اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان قاسم ضیاء کی شکست سے شروع ہوئی تھی۔ مگر ہاتھیوں کی اس لڑائی میں نقصان مسلسل گھاس یعنی پاکستانی کھیلوں اور کھلاڑیوں کا ہو رہا ہے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: افسر اعوان