پاکستانی طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے اور الیکشن سے متعلق خدشات
24 دسمبر 2012اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے، جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، ایسے پاکستانی علاقے ہیں جنہیں عسکریت پسندوں کے حملوں کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں میں وا ضح اضافہ دیکھا گیا۔ اس دوران تقریباﹰ ہر روز کیے جانے والے بم حملوں میں 40 سے زائد لوگ مارے گئے۔ ان میں سے سب سے شدید حملہ ہفتے کے روز پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک اجلاس پر کیا جانے والا خود کش بم حملہ تھا۔ اس بم دھماکے میں صوبائی حکومت کے سینئر وزیر بشیر بلور سمیت نو افراد ہلاک ہوئے اور طالبان نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
پاکستانی طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بشیر بلور کو اپنی تحریک کے سرکردہ ارکان کی سکیورٹی اداروں کی طرف سے مختلف کارروائیوں میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے نشانہ بنایا۔
خیبر پختونخوا کے صوبے میں طالبان کی خونریز کارروائیوں میں اضافے کی اس نئی لہر کا آغاز 15 دسمبر کو ہوا تھا۔ تب طالبان باغیوں نے، جو بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھے، پشاور کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس واقعے میں مجموعی طور پر کم ازکم 16 افراد مارے گئے تھے جن میں سے دس عسکریت پسند تھے۔ پھر چند ہی روز بعد طالبان نے خیبر ایجنسی میں مقامی حکومت کے دفتر کے قریب ایک کار بم حملہ کیا تھا جس میں کم ازکم 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں تحریک طالبان کے ان حالیہ حملوں کے بارے میں معروف تجزیہ نگار حسن عسکری نے اے ایف پی کو بتایا کہ شدت پسندوں کے ان حملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کو عدم استحکام کا شکار بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ حسن عسکری کے مطابق یہ حالیہ کارروائیاں طالبان کے وہ بڑے حملے ہیں جن کے ذریعے وہ انتشار پھیلاتے ہوئے لوگوں کا حکومتی ڈھانچے پر اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حسن عسکری کے مطابق طالبان کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ حکومت کے قابل اعتماد ہونے کو مشکوک بنا دیں اور عوام میں اس احساس کو تقویت دیں کہ ریاستی ڈھانچہ ناکام ہوتا جا رہا ہے۔
بشیر بلور پشاور میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے دوسرے اہم ترین رکن تھے۔ طالبان کے لیے اس سینئر صوبائی وزیر اور اپنے بہت بڑے ناقد کو اس طرح ہلاک کر دینا خود ان کی اپنی نظر میں ایک بڑا کام سمجھا جا رہا ہے۔ حسن عسکری کہتے ہیں کہ طالبان کو بشیر بلور کے قتل کا دوہرا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے اپنے ایک تجربہ کار اور بے خوف مخالف کو خاموش کرا دیا اور دوسرے یہ کہ ان تمام لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جو بشیر بلور کے نقش قدم پر چلنے کا سوچ سکتے ہیں۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں موجودہ حکومت ایک مخلوط وفاقی حکومت ہے۔ یہ حکومت اگلے سال مارچ میں اپنی پانچ سالہ پارلیمانی مدت پوری کرے گی۔ موجودہ حکومت کئی بار کہہ چکی ہے کہ آئندہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے لیکن حتمی طور پر ان انتخابات کے لیے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔ کئی ماہرین کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر طالبان کے مسلسل حملے اسی طرح جاری رہے اور مجموعی طور پر سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہو گئی، تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات کا انعقاد ملتوی کر دیا جائے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار اور پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ طالبان خونریز حملوں میں اضافہ اس لیے کر رہے ہیں کہ فوجی اور سیاسی اہداف کو نشانہ بنا کر ملک میں انتشار پیدا کر سکیں۔
طلعت مسعود نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان انتخابات کے انعقاد کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ اگر ریاست کمزور ہو گی تو انہیں پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ اگر سیاسی خلاء پیدا ہو گا تو لوگ حکومت پر اعتماد کرنا بند کر دیں گے اور طالبان یہی چاہتے ہیں۔
(ij /mm (AFP