پاکستانی طالبان کی مذاکرات کے لیے شرائط
15 ستمبر 2013پاکستان تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد طالبان قیادت کے بلائے جانے والے اجلاس میں اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے دس سالہ شورش کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق کیا تھا۔
ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون کرتے ہوئے شاہد کا کہنا تھا، ’’امن کے نام پر طالبان کو ماضی میں بھی دھوکا دیا جا چکا ہے۔ حکومت کو مذاکرات سے پہلے چند اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ طالبان کو یقین ہو سکے کہ حکومت واقعی امن عمل کے لیے سنجیدہ ہے۔‘‘
شاہد کا کہنا تھا کہ حکومت کو طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کرنا ہوگا اور افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں سے فوج کو واپس بلانا ہوگا، ’’ اگر حکومت ان دو شراط کو پورا نہیں کرتی تو امن عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘
کیا آرمی انخلاء کے لیے تیار ہے ؟
چند روز پہلے انٹیلی جنس حکام اور طالبان رہنماؤں نے قیدیوں کے تبادلے کی تصدیق کی تھی۔ اس اقدام کا مقصد اعتماد سازی کی فضا پیدا کرنا بتایا گیا تھا لیکن پاکستان آرمی نے سرکاری طور پر قیدیوں کے تبادلے کی تردید کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دو شرائط پاکستان آرمی کے لیے قابل قبول ہوں گی۔ فوج کو پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ تصور کیا جاتا ہے اور طالبان کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں فوجی اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ تاہم گزشتہ روز پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کی بتدریج واپسی کی اصولی طورپر منظوری دیدی ہے۔ وزیراعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا ہفتے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کی مرحلہ وار واپسی کا عمل اگلے مہینے سے شروع ہوجائے گا جبکہ پہلے مرحلے میں بونیر اور شانگلہ سے فوجی دستے واپس بلائے جائیں گے۔
عسکریت پسندوں کی مزاحمت جاری
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آرمی درجنوں آپریشن کر چکی ہے لیکن عسکریت پسندوں کا زور توڑنے میں ناکام رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کی گوریلا کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ ان کارروائیوں کے تناظر میں بہت سے مبصرین ان امن مذاکرات کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق ان معاہدوں کے ذریعے عسکریت پسندوں کو وقت مل جاتا ہے اور وہ دوبارہ منظم ہو کر ریاست کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اگر حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پا بھی جاتا ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ پرتشدد کارروائیوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔ ان کے مطابق قبائلی علاقوں میں درجنوں عسکری گروپ ہیں اور ہر ایک کا اپنا علیحدہ موقف ہے۔