پاکستانی طالبان کی فوج پر خود کش حملوں کی دھمکی
21 اگست 2012اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کی طرف سے یہ دھمکی پیر کے روز ملکی میڈیا کو بھیجے جانے والے ایک ای میل پیغام میں دی گئی ہے۔
اس ای میل میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو، جو متعدد پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کا اتحاد ہے، پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹرز میں اس کے مبینہ ’ذرائع‘ کے حوالے سے یہ ’بہت خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ‘ ملی ہے کہ فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں ایک بڑے ملٹری آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان طالبان کی طرف سے بھیجی گئی اس ای میل میں تحریک کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ان مبینہ تفصیلات کا ذکر بھی کیا کہ اس ممکنہ آپریشن میں فوج کی کون کون سی رجمنٹیں اور یونٹ حصہ لے سکتے ہیں اور مبینہ طور پر اس مہینے کی 26 تاریخ کو شروع ہو کر ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس مجوزہ آپریشن کا ممکنہ کمانڈر کون ہو سکتا ہے۔
احسان اللہ احسان نے ٹی ٹی پی کی اس دھمکی آمیز ای میل میں کہا، ’تحریک طالبان پاکستان نے بھی خود کو اس آپریشن کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کر لیا ہے۔ ہم نے ایک ایسا خود کش اسکواڈ قائم کر دیا ہے جو اس علاقے میں فوج کا استقبال کرے گا۔ ہم فوج کو شکست سے دو چار کر دیں گے، جو پاکستان کے لادین اور غیر اسلامی نظام کا دفاع کر رہی ہے۔ ہم فوج کو زبردست مزاحمت کے ساتھ پسپائی پر مجبور کر دیں گے۔‘
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے طالبان کی اس ای میل اور اس میں دی گئی دھمکی پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی تین اگست کی اشاعت میں لکھا تھا کہ پاکستانی اور امریکی حکام مبینہ طور پر افغانستان اور پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں اور حقانی گروپ کے شدت پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں مشترکہ اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔
اس امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین یہ اشتراک عمل ایک سال تک جاری رہنے والی اس کشیدگی کے بعد ایک نیا نقطہء عروج ثابت ہو گا جو گزشتہ برس پاکستان میں امریکی فوجی کمانڈوز کے ہاتھوں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا باعث بننے والے خفیہ آپریشن کے بعد سے پائی جاتی تھی۔
اس رپورٹ کے بعد پاکستانی حکام نے اس بارے میں تردید بھی کر دی تھی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان شمالی وزیرستان میں کسی مشترکہ فوجی آپریشن سے متعلق کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔ اس بارے میں پاکستانی حکام نے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے دونوں طرف اپنے اپنے طور پر معمول کی جو فوجی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، انہیں کسی غلط فہمی کے نتیجے میں ’مشترکہ آپریشن‘ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکا پر گیارہ ستمبر 2001ءکے حملوں کے بعد امریکی سربراہی میں افغانستان میں اتحادی فوجی مداخلت کے بعد سے پاکستان کو اپنے ہاں جس مسلسل دہشت گردی کا سامنا ہے، اس میں اب تک تین ہزار سے زائد فوجیوں سمیت 35 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
mm / ng (AFP)