پاکستانی طالبان کا جیلیں توڑ کر ساتھی رہا کرانے کا پلان
30 اگست 2013قبائلی علاقوں میں فعال پاکستانی طالبان کی نگرانی میں جو نیا گروپ قائم ہوا ہے، اس کا نام انصار الاسیر رکھا گیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موت کی سزا سے بچ نکلنے والا انتہا پسند اور کئی حملوں میں ملوث عدنان رشید اب اس گروپ کی کمانڈ کر رہا ہے۔ عدنان رشید کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ آٹھ برس تک موت کی کوٹھری میں رہا۔ پھر بنوں جیل پر طالبان کے حملے میں اس کو رہا کرا لیا گیا تھا۔ ان دنوں عدنان رشید نے اپنے سر کے بالوں کو خاصا لمبا کر لیا ہے۔ وہ پاکستانی فضائیہ کا سابق ملازم ہے اور اس کی عمر 33 برس ہے۔
تیس جولائی تک کوئی بھی انتہا پسند گروپ انصار الاسیر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ طالبان کا یہ گروپ پاکستان کی مختلف جیلوں پر حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوششوں میں ہے۔ عدنان رشید نوعمر لڑکوں کو جیل بریک کرنے کی خصوصی تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عدنان کے گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ کر کے 250 کے قریب عسکریت پسندوں کو رہا کرایا تھا۔ اس حملے کا ماسٹر پلانر بھی عدنان رشید ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ انصار الاسیر کو بنیادی سرمایہ طالبان اور دوسرے گروپ فراہم کرتے ہیں۔ اس گروپ کے تین غیر ملکی ٹرینر گزشتہ ماہ جنوبی وزیرستان میں کیے گئے ڈرون حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔
جیل توڑنے کے عمل میں قبائلی طالبان کے ساتھ وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان کی مذہبی تنظیم کے کارکن بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ کالعدم لشکرِ جھنگوی کے شدت پسند بھی شرکت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں جیلوں پر حملے کر کے قیدیوں کی رہائی کے پلان میں القاعدہ کا تعاون بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ شریک کئی طالبان گروپ علیحدگی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر انصار الاسیر کے مزید قائم رہنے کا تعین کرنا بھی مشکل خیال کیا جاتا ہے کیونکہ مختلف گروپوں میں اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے۔
عدنان رشید نے انتہا پسندوں کے جریدے اذان کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستان ایئر فورس میں رہتے ہوئے جرمنی جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن 11 ستمبر سن 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد ہی اس نے افغانستان میں لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ عدنان رشید نے خود کش بمبار بننے کی کوشش بھی کی لیکن اس کے گروپ نے اسے واپس بھجوا دیا تھا۔ اب وہ بھارت میں بھی لڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس نے اپنے تین دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ سن 2003 میں پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ پلان کیا جو ناکام رہا تھا۔ سن 2012 میں اسے بنوں جیل پر ایک حملے کے دوران چھڑا لیا گیا تھا۔ عدنان رشید نے اپنے انٹرویو میں پاکستان کی جیلوں میں مقید انتہا پسند قیدیوں کی رہائی کے عزم کا اظہار بھی کیا۔