پاکستانی طالبان نے جنگ بندی کے لیے شرائط پیش کر دیں
27 دسمبر 2012ان شرائط کا خاکہ آج جمعرات کو تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان کی طرف سے پیش کیا گیا، جسے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ’ناقابل قبول‘ قرار دے دیا ہے۔ خبر ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق طالبان کی طرف سے یہ شرائط پاکستان کے انگریزی روزنامے دی نیوز کے نام ایک خط میں لکھی گئی ہیں۔
اس خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی اس جنگ میں اپنی شمولیت ختم کرنا ہو گی، جس کے فریقین کے طور پر افغان باغیوں کا سامنا کابل حکومت اور اس کی مسلح افواج سے ہے۔ اس خط کے مطابق پاکستان کو دوبارہ اپنی توجہ اس جنگ پر مرکوز کرنا ہو گی جس کا مقصد ’بھارت سے بدلہ لینا ہے‘۔
روئٹرز کے مطابق طالبان کے امیر معاویہ نامی ترجمان نے مبینہ طور پر یہ خط ایسے وقت پر لکھا ہے جب افغانستان میں زیادہ توجہ اب نیٹو کے جنگی دستوں کی طرف سے فوجی کارروائی کی بجائے طالبان کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات پر دی جانے لگی ہے اور ساتھ ہی یہ فواہیں بھی گردش میں ہیں کہ پاکستانی طالبان کے اعلیٰ ترین رہنماؤں میں بھی آپس میں کھچاؤ پایا جاتا ہے ہے۔
پاکستانی فوج کے ذرائع کی طرف سے گزشتہ مہینے روئٹرز کو یہ بتایا گیا تھا تحریک طالبان پاکستان TTP کے رہنما حکیم اللہ محسود کو حاصل عسکریت پسندوں کی آپریشنل کمان اب حکیم اللہ کے نائب ولی الرحمان کو منتقل ہو چکی ہے۔ ان عسکری ذرائع کے مطابق ولی الرحمان ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے مقابلے میں پاکستانی حکومت کے ساتھ مصالحت کا زیادہ حامی ہے۔ طالبان ذرائع کی طرف سے ان دعووں کی تردید کی جاتی ہے کہ حکیم اللہ محسود عسکریت پسندوں کی آپریشنل کمان سے محروم ہو چکا ہے۔
پاکستانی طالبان ایک عسکریت پسند گروپ کے طور پر افغان طالبان سے مختلف ہیں مگر وہ افغانستان میں سرگرم طالبان کے اتحادی ہیں۔ ٹی ٹی پی کی طرف سے اب تک پاکستان میں فوجی اور سویلین اہداف پر بے شمار تباہ کن اور ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔
اسلام آباد حکومت کو پاکستانی طالبان کی جنگ بندی کی پیشکش اور اس بارے میں شرائط پر اپنے رد عمل میں پاکستانی حکومت نے ایک سینئر عہدیدار نے کہا، ’یہ لوگ مجرموں کا ایک گروپ ہیں۔ یہ افغان طالبان نہیں ہیں۔ یہ مذاکرات پر بھی آمادہ نہیں ہیں‘۔ اس حکومتی اہلکار نے کہا کہ طالبان کی یہ شرائط ناقابل قبول اور اشتعال انگیز ہیں۔ ’’ان شرائط یا اس پیشکش کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔ ٹی ٹی پی کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے۔ کوئی ایسی تنظیم تو بالکل نہیں جس کے ساتھ کوئی حکومت بات چیت کر سکتی ہو۔‘‘
پاکستانی طالبان کی ان جنگ بندی شرائط کی ان عسکریت پسندوں کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی روئٹرز کو کسی نامعلوم جگہ سے ایک ٹیلی فون کال میں تصدیق کر دی ہے۔ پاکستانی طالبان کے اس ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قوانین اور آئین کو اسلامی قوانین کے مطابق بنانا ہو گا۔ طالبان کے اس ترجمان نے روئٹرز کو بتایا، ‘اگر وہ ہمارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں تو ہم جنگ بندی پر تیار ہیں۔ انہیں ایک اسلامی نطام قائم کرنا ہو گا، اپنی خارجہ پالیسی درست کرنا ہو گی اور امریکی مطالبات سے اتفاق کرنا بند کرنا ہو گا‘۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ طالبان کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی فوج مبینہ طور پر ’امریکا کے لیے کرائے کا قاتلوں کا کام‘ کر رہی ہے۔ احسان اللہ احسان کے بقول پاکستان میں ان دو بڑی سیاسی جماعتوں پر مسلح حملے جاری رہیں گے جو مبینہ طور پر امریکی مفادات پورا کرنے میں لگی ہیں۔ ترجمان نے ان سیاسی پارٹیوں کے نام نہیں بتائے۔ ساتھ ہی طالبان کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستانی حکومت کی بہت بڑی غلطی یہ تھی کہ ’پاکستان نے افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑی اور پھر اس جنگ کو پاکستان میں لے آئے‘۔
(ij / ab (Reuters