پاکستانی طالبان نے امن مذاکرات سے متعلق خبروں کو مسترد کر ديا
31 اگست 2013تحريک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور طالبان کے درميان تاحال کوئی رابطہ قائم نہيں ہوا ہے۔ ايک نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا، ’’پاکستانی حکومت اور طالبان کے درميان کسی بھی سطح پر امن مذاکرات نہيں ہوئے ہيں۔ اس سلسلے ميں ہمارے درميان کوئی رابطہ نہيں ہوا اور نہ ہی ہميں کوئی پيشکش کی گئی ہے۔‘‘
قبل ازيں ہفتے کے روز پاکستان ميں ذرائع ابلاغ کے بيشتر اداروں نے ايسی خبريں نشر کی تھيں کہ حکومت اور طالبان کے درميان امن مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے، حتیٰ کہ چند اداروں نے تو يہ بھی کہہ ديا تھا کہ اس بارے ميں شدت پسندوں کے ساتھ رابطہ قائم ہو چکا ہے۔
اس سلسلے ميں ايک نجی اخبار نے وزير اطلاعات پرويز رشيد کے حوالے سے لکھا، ’فريقين کے مابين غير سرکاری مذاکرات جاری ہيں۔‘ اخبار کے مطابق وزير اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت کا بنيادی مقصد امن قائم کرنا ہے اور وہ اس سلسلے ميں ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ رشيد نے مزيد کہا کہ ملک ميں دہشت گردی کا خاتمہ لازمی ہے اور اس کے ليے تمام تر آپشنز استعمال ميں لائے جا سکتے ہيں۔
اسلام آباد انتظاميہ اور طالبان شدت پسندوں کے مابين بات چيت کی يہ خبريں اس وقت سامنے آئی ہيں جب ابھی قريب دو ہفتے قبل ہی نواز شريف نے وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی قوم سے پہلے ٹيلی وژن خطاب کے دوران ملک ميں پچھلی ايک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خونريزی کے خاتمے کے ليے انتہا پسندوں کو بات چيت کی دعوت دی تھی۔
پاکستانی وزير اعظم کی قريب ايک گھنٹہ طويل یہ تقرير 19 اگست کو ملکی ٹيلی وژن چينلز پر نشر کی گئی تھی۔ بعد ازاں طالبان کے ايک کمانڈر عصمت اللہ معاويہ نے کچھ روز بعد اس پيشکش کا خير مقدم بھی کيا ليکن طالبان نے ان کو ان کے اس اقدام پر برطرف کر ديا تھا۔