پاکستانی طالبان مذاکرات کے لیے تیار مگر غیر مسلح نہیں ہوں گے
29 دسمبر 2012حکیم اللہ محسود کے بیان سے ان قیاس آرائیوں کو کسی حد تک تقویت حاصل ہوئی ہے کہ شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کی قبائلی پٹی میں مسلح انتہا پسند مرکزی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے راضی ہو جائیں گے۔ حکیم اللہ محسود کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں انہوں نے ہتھیار پھینکنے کے نظریے کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
امریکا نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر رکھی ہوئی ہے۔ حکیم اللہ محسود نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک اور سخت شرط بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ اسلام آباد کو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرنا ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ ناممکنات میں سے ہے۔ اس طرح تحریک طالبان نے بات چیت کی جو دعوت دی ہے، وہ انتہائی پیچیدہ اور ناقابل عمل دکھائی دیتی ہے۔ اس ویڈیو میں محسود نے واضح کیا کہ اگر پاکستانی حکومت واشنگٹن سے تعلقات ختم کر دیتی ہے تو یہ مذاکرات میں اس کی دلچسپی اور سنجیدگی کا اظہار ہو گا۔
اسی ویڈیو میں حکیم اللہ محسود نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر پاکستان کی حکومت طالبان کے ساتھ امریکا کی غلامی میں رہتے ہوئے مذاکرات شروع کرتی ہے، تو یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے کیونکہ ’ایک غلام آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہوتا ہے‘۔ محسود نے اسلام آباد پر یہ الزام بھی لگایا کہ ماضی میں بھی وہ مذاکرات کے وعدے سے امریکی دباؤ کے تحت منکر ہوتا رہا ہے۔ محسود نے اس بابت کوئی زیادہ تفصیل نہبں بتائی۔
صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے طالبان کی جانب سے مشروط بات چیت کی پیش کش کا محتاط الفاظ میں خیر مقدم کیا ہے۔ میاں افتخار حسین نے طالبان کی اس پیشکش کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کو چاہیے کہ ماضی کے گزرے واقعات کو بھلا کر آگے بڑھیں اور حکومت بھی ان واقعات اور نقصانات کو فراموش کرنے پر تیار ہے جو ماضی میں ہو چکے ہیں۔ میاں افتخار حسین نے پاکستانی طالبان کو تشدد کی راہ چھوڑ دینے کا مشورہ بھی دیا۔
طالبان کی جانب سے جاری کردہ اس ویڈیو کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے کب ریکارڈ کیا گیا تھا۔ البتہ ویڈیو میں حکیم اللہ محسود کے نائب ولی الرحمان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ولی الرحمان کے سر کی قیمت بھی امریکا نے پانچ ملین ڈالر رکھی ہوئی ہے۔ ویڈیو کو خیبر پختونخوا میں ذرائع ابلاغ تک پہنچایا گیا تھا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بشیر احمد بلور کی ہلاکت کے بعد ہی اس ویڈیو کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکیم اللہ محسود نے پاکستانی طالبان کی قیادت بیت اللہ محسود کی سن 2009 میں ہونے والی ہلاکت کے بعد سنبھالی تھی۔
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں گزشتہ ہفتوں کے دوران طالبان کی مسلح اور پرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جمعرات کی صبح طالبان جگجوؤں نے پشاور کے نواح میں پیرا ملٹری فوجی دستوں کے دو کیمپوں پر حملہ کر کے دو سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ 22 کو اغوا بھی کر لیا تھا۔ اسی سال اگست میں طالبان نے ایک درجن سے زائد اغوا شدہ فوجیوں کی سربریدہ لاشوں کی ویڈیو بھی ریلیز کی تھی۔ پچھلے ویک اینڈ پر عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رہنما بشیر احمد بلور کو ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔
ah / mm (AFP)