پاکستانی سوشل میڈیا میں وزیر اعظم راجہ پر طنز
25 جون 2012بعض لوگوں کی طرف سے راجہ پرویز اشرف کی بطور وزیر پانی و بجلی کارکردگی اور سپریم کورٹ کی طرف سے ان کے خلاف رینٹل پاور پلانٹ کیس میں کارروائی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ ویب سائٹ فیس بک پر تو بعض لوگوں نے اخلاقی معیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وزیر اعظم کے حوالے سے کارٹون اور لطیفے بھی بنا ڈالے ہیں۔
کچھ لوگوں نے وزیر اعظم کی طرف سے پہلے بھٹو کے مزار پر حاضری دینے اور بعد میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دینے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اب آ پ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ وزیر اعظم کا اصل قائد کون ہے۔ ٹوئٹر پر سوموار کی شام ایک دل جلے نے لکھا" راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بن گئے ہیں، میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ اب بجلی کا جنریٹر لے لوں"۔
ٹوئٹر پر ایک عوامی سروے کے حوالے سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اٹھاسی فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئے وزیر اعظم توانائی کا بحران حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اسی طرح فیس بک پر بھی وزیر اعظم کے حامیوں نے ان کے اخباری بیانات کے تراشے اور حلف وفاداری کی تقریب کی تصاویر لگا رکھی ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے مخالفین نے رنگ برنگے پوسٹر بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ سیا رنگ کے بیک گراونڈ والے ایک پوسٹر پر کسی نے راجہ صاحب کی تصویر لگا کر نیچے یہ لکھا ہے کہ اندھیر نگری چوپٹ راجہ۔ ایک دوسرے پوسٹر پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اپنا وعدہ پورا نہ کر سکنے والے راجہ پرویز اشرف کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر کے نیچے لکھا ہے، "ذرا پھر سے کہنا"۔
فیس بک پر ہی ایک اور تصویر میں صدر زرداری کو راجہ پرویز اشرف سے حلف لیتے دکھایا گیا ہے نیچے یہ عبارت تحریر ہے،"میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی کروں گا، اگر کوئی سوئس حکام کو خط لکھنے کا بھی کہے گا تو میں با لکل نہیں لکھوں گا"۔
اسی طرح یو ٹیوب پر بھی راجہ پرویز اشرف کے ماضی کے دعوں والی ویڈیوز کوبھی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ سپیریئر یونیورسٹی کے ڈین اور ابلاغیات کے معروف استاد ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سوشل میڈیا ھائیڈ پارک کی طرح ہے جہاں لوگ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان عام لوگوں سے اعلی اخلاقی میعارات کی توقع کرنا شاید درست نہ ہو گا۔ ان کے بقول پاکستان میں سوشل میڈیا کو منصوبہ بندی کے تحت پراپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ ان کے نزدیک اخلاقیات برتنے کی چیز ہے کاغذوں پر لکھنے کی نہیں اس لیے سوسائٹی کو رضاکارانہ بنیادوں پر ان اخلاقی میعارات کو اپنانا ہو گا۔
ایک صحافی فرخ خان کہتے ہیں کہ اگر راجہ صاحب کا اپنا امیج درست نہیں ہے تو اس میں ٹوئٹر کا قصور کیا ہے ان کے مطابق لوگ حکومتی کارکردگی پر غصہ دکھا رہے ہیں اور ان کا کتھارسز ہو رہا ہے البتہ انکے بقول وزیر اعظم کا نام بگاڑنا درست نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے ایک ماہر سلمان عابد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اس کی کریڈیبیلیٹی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ ان کے بقول سوشل میڈیا پر ایسے امور بھی زیر بحث لائے جا رہے ہیں جن امور کو روایتی میڈیا زیر بحث نہیں
لاتا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: شادی خان سیف