پاکستان ہاکی کے بُرے دنوں کا ذمہ دار کون؟
2 ستمبر 2013ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان قاسم ضیاء نے سن 2008ء میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدارت سنبھالی، جس کے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم نے عالمی کپ میں رسوا کن بارہویں پوزیشن لی اور اس مرتبہ چار بار کی عالمی چیمپین سرے سے ہی ورلڈ کپ سےباہر ہوگئی۔
ذرائع کے مطابق ٹیم گروپ بندی کا شکار تھی اور دنیا کے نمبر ایک کھلاڑی شکیل عباسی کو نظر انداز کرکے ایک ایسے کھلاڑی محمد عمران کو کپتان مقرر کیا گیا جو دوسال سے خراب کاکرکردگی دکھا رہے تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے قریبی تعلق کی وجہ سے وقاص شریف جیسے کھلاڑی کو نائب کپتان مقرر کرکے اقرباء پروری کی بدترین مثال قائم کی گئی جن کی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ کاشف شاہ اور عرفان جونئیر جیسے کھلاڑیوں کو باہر کرنے کی بھی ٹیم کو بڑی قیمت چکانا پڑی۔
ذرائع کے مطابق اختر رسول کی چیف مینجر بننے کے بعد کھلاڑیوں اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے اختلافات میں اضافہ ہوا۔ کھلاڑی اختر رسول کے سخت رویے سے ہمیشہ شاکی رہے۔ کھلاڑیوں کی مالی مشکلات حل نہ ہونے سے بھی مسائل بڑھتے چلے گئے جس کے بعد پاکستان کو کھیل کی تاریخ کا سب سے برا دن ایپوہ میں دیکھنا پڑا۔
دریں اثناء پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کوچ اور مینجر خواجہ جنید کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ سے پہلے کوچز اور کھلاڑیوں کی تبدیلی کے سبب پاکستان کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ جنید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ٹورنامنٹ سے چند دن پہلے حنیف خان کو برطرف کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترداف تھا۔ ٹیم میں کھلاڑیوں کی تبدیلی بھی نقصان دہ ثابت ہوئی۔ جنید کے مطابق پاکستان کو اس ناکامی سے حصار سے باہر نکلنے کے لیے بڑا وقت درکار ہوگا۔
اختر رسول کے متعلق جنید کا کہنا تھا کہ وہ دو کشتیوں کے سوار تھے اور دو کشتیوں کے سواروں کو منزل نہیں ملتی۔ اختر رسول پہلے کہتے تھے، ’’سیاست کی وجہ سے ہاکی کے لیے میرے پاس وقت نہیں، پھر انہوں نے خود کو ہاکی کے لیے وقف کر دیا اور اب دوبارہ سیاست میں چلے جائیں گے۔‘‘
جنید، جو پاکستان کی جانب سے آخری ایشیا کپ اور عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن تھے کہتے ہیں کہ فیڈریشن کو تمام ناراض اولمپئین کے ساتھ مل کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ورنہ اس سے بھی برا ہوسکتا ہے۔