پاکستان کی جانب سے عرب امارات کے بیان کی مذمت
12 اپریل 2015اتوار کے روز پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے یو اے ای کے وزیر خارجہ انور غرغاش کے بیان پر کہا کہ یہ پاکستانیوں کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سفارتی تعلقات اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’’پاکستان ایک باوقار ملک ہے اور اس کے یو اے ای اور سعودی عرب کے عوام کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، تاہم متحدہ عرب امارات کے وزیر کا بیان پاکستانیوں کی انا کے خلاف ہے اور کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ جمعہ دس اپریل کو اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں اور ایوان بالا کے کئی دنوں تک جاری رہنے والے مشترکہ اجلاس میں پاکستانی قانون سازوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یمن میں جاری تنازعے میں ان کا ملک فریق نہیں بنے گا اور غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرے گا۔
جمعے کے روز انگریزی اخبار ’خلیج ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یو اے ای کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کا مبہم اور متضاد موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ لیبیا سے لے کر یمن تک عرب ممالک کی سلامتی میں کوئی اور مسلمان ملک عربوں کی مدد نہیں کرے گا۔
انور محمد کا مزید کہنا تھا: ’’عرب خلیجی خطہ خطرناک کشمکش کا شکار ہے، اور اس کی اسٹریٹیجک سلامتی داؤ پر لگی ہے۔ اس وقت یہ طے ہو رہا ہے کہ کون ہمارا حقیقی اتحادی ہے اور کون ذرائع ابلاغ اور صرف بیان بازی کی حد تک حلیف ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات نے پاکستانی پارلیمان کی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ قرارداد عرب ممالک کے مقابلے میں ایران کی حمایت کے مترادف ہے۔ ’’اسلام آباد اور انقرہ کے لیے تہران خلیجی ممالک سے زیادہ اہمیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔‘‘
چھبیس مارچ سے سعودی عرب کی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ حوثی باغی دارالحکومت صنعاء اور جنوبی بندرگاہی شہر عدن سمیت ملک کے کئی شہروں پر قابض ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ملکی صدر عبدربہ منصور ہادی سعودی دارالحکومت ریاض میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ ایران ان حوثی شیعہ باغیوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔
shs/ia