پاکستان: مون سون بارشوں کے سبب ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زائد
وقت اشاعت 19 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 19 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ڈھاکہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ
- چین نے تبت میگا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی، بھارتی تحفظات مسترد
- پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات، مثبت پیش رفت کا عندیہ
- ایران میں تین افراد کو ریپ کے جرم میں پھانسی دے دی گئی
- کانگو اور ایم 23 باغیوں کے درمیان امن کی راہ ہموار، دوحہ میں معاہدے پر دستخط
- غزہ میں اسرائیلی حملے: امدادی مراکز کے قریب 26 فلسطینی ہلاک، 100 سے زائد زخمی
- شام: سویدا میں خونریز جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی کا اعلان
پاکستان میں مون سون بارشوں کے سبب ہلاکتوں کی تعداد 200 سے متجاوز
پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران مون سون بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال اور دیگر حادثات سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ ملک بھر میں شدید بارشیں تاحال جاری ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 26 جون سے شروع ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں اب تک 203 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 97 بچے اور 37 خواتین شامل ہیں۔ کم از کم 562 افراد زخمی ہوئے۔
این ڈی ایم اے کی جانب سے آج ہفتہ 19 جولائی کو جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ پنجاب میں ہوئیں، جہاں پرانی اور خستہ حال عمارتوں کی دیواریں اور چھتیں گرنے کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے 700 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا، جب کہ 200 سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ جولائی اور اگست میں مزید شدید بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں میں طغیانی، سیلاب اور شہری علاقوں میں پانی بھرنے کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان، جس کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی آفات سینکڑوں پاکستانیوں کی جان لے لیتی ہیں، جب کہ ہزاروں افراد اپنے گھر اور روزگار کھو بیٹھتے ہیں۔
یاد رہے کہ 2022ء میں پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور سیلاب سے 2,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا تھا، اور معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ڈھاکہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت جماعتِ اسلامی نے آج ہفتے کے روز دارالحکومت ڈھاکہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں کارکنوں پر مشتمل ریلی نکالی، جسے اگلے برس متوقع عام انتخابات سے قبل ایک اہم سیاسی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
نوبل انعام یافتہ معیشت دان محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت نے کہا ہے کہ انتخابات اپریل میں ہوں گے، تاہم بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ پر فروری میں پولنگ کے امکان کو بھی رد نہیں کیا گیا۔
1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والی جماعتِ اسلامی نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ وہ ہفتے کے دن 10 لاکھ افراد کو متحرک کرے گی۔
یاد رہے کہ شیخ حسینہ، جو 2009 سے 2024 تک وزیرِ اعظم رہیں، گزشتہ برس طلبہ تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹا دی گئی تھیں اور اب وہ بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جب کہ ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں۔
شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں جماعتِ اسلامی کے اعلیٰ رہنماؤں کو 1971ء کے ’جنگی جرائم‘ کے تحت پھانسیاں دی گئیں یا عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
ہفتے کے روز جماعتِ اسلامی نے یونس حکومت کے سامنے سات نکاتی مطالبات پیش کیے، جن میں آزادانہ اور شفاف انتخابات، 1971ء کے قتل عام پر مکمل عدالتی کارروائی، اصلاحات، تناسبی نمائندگی کے نظام کا نفاذ اور عوامی بغاوت کے چارٹر کا اعلان شامل ہے۔
جماعت کے ہزاروں کارکنان نے جمعہ کی رات ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطے میں گزاری، جب کہ ہفتے کی صبح وہ سہروردی اُدیان کی جانب روانہ ہوئے، جہاں 16 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج نے بھارتی و بنگلہ دیشی مشترکہ افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔
یہ 1971ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ جماعتِ اسلامی کو اس تاریخی مقام پر ریلی کی اجازت دی گئی، جسے کئی مبصرین یونس حکومت کی جانب سے اسلام پسند قوتوں کی پشت پناہی اور لبرل سیاست کے سکڑتے دائرے کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
جماعتِ اسلامی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں 300 قومی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار کھڑے کرے گی اور دیگر اسلامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ بی این پی اور عوامی لیگ کے بعد ملک کی تیسری بڑی قوت بن سکے۔
جماعت کا طلبہ کی نئی سیاسی جماعت ’نیشنل سٹیزن پارٹی‘ سے بھی قریبی تعلق ہے، جو شیخ حسینہ کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہی۔ دونوں جماعتیں بھارت مخالف مہم میں بھی سرگرم ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق گزشتہ برس جولائی اور اگست میں شیخ حسینہ حکومت کے خلاف تحریک کے دوران قریب 1,400 افراد ہلاک ہوئے۔
چین نے تبت میگا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی، بھارتی تحفظات مسترد
چین نے ہفتے کے روز تبت اور بھارت سے گزرنے والے ایک دریا پر میگا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا، جس کی افتتاحی تقریب میں وزیرِ اعظم لی چیانگ نے شرکت کی۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق بیجنگ نے یہ منصوبہ دسمبر میں منظور کیا تھا، جو اس دریا پر بنایا جا رہا ہے جسے تبت میں یارلنگ سانگپو اور بھارت میں برہما پترا کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کوچین کے ماحولیات دوست اہداف اور تبت میں اقتصادی ترقی سے جوڑا گیا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق، ’’یہاں پیدا کی جانے والی بجلی کو بنیادی طور پر دیگر علاقوں میں منتقل کیا جائے گا، جبکہ یہ تبت میں مقامی ضروریات کو بھی پورا کرے گی۔‘‘ یہ بیان جنوب مشرقی تبت کے علاقے نِنگچی میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے بعد دیا گیا۔
تعمیر مکمل ہونے کے بعد، یہ ڈیم چین کے یانگسی دریا پر قائم ریکارڈ ساز تھری گورجز ڈیم کو بھی اپنے سائز کے حساب سے پیچھے چھوڑ سکتا ہے اور بھارت و بنگلہ دیش کے کروڑوں باشندوں پر اس کے ممکنہ سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
شنہوا کے مطابق اس منصوبے کے تحت پانچ ہائیڈرو پاور اسٹیشن تعمیر کیے جائیں گے، جن پر مجموعی طور پر لگ بھگ 1.2 ٹریلین یوان (167.1 ارب ڈالر) کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
بھارت نے جنوری میں اس منصوبے پر چین سے خدشات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ’’اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔‘‘
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ چین سے مطالبہ کیا گیا ہے، ’’برہما پترا دریا کے زیریں علاقوں میں واقع ریاستوں کے مفادات کو بالا علاقوں کی سرگرمیوں سے نقصان نہ پہنچے۔‘‘
دسمبر میں چین کی وزارتِ خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’’زیریں علاقوں پر منفی اثرات نہیں ڈالے گا‘‘ اور بیجنگ’’دریا کے زیریں علاقے پر موجود ممالک سے رابطے میں بھی رہے گا۔‘‘ زیریں علاقوں کے خدشات کے علاوہ ماحولیاتی ماہرین نے بھی اس میگا پراجیکٹ کے تبت کے ماحولیاتی طور پر حساس خطے پر ناقابل واپسی اثرات سے خبردار کیا ہے۔
بھارت اور چین نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ علاقائی حریف طاقتیں بھی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ہزاروں کلومیٹر طویل متنازع سرحد ہے، جہاں دونوں جانب لاکھوں فوجی تعینات ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات، مثبت پیش رفت کا عندیہ
پاکستان نے جمعے کو واشنگٹن میں امریکا کے ساتھ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ہونے والے تجارتی مذاکرات کو ’’مثبت اور نتیجہ خیز‘‘ قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لوٹ نک اور امریکی تجارتی نمائندے سفیر جیمیسن گریر سے ملاقات کی، جہاں دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور امید ظاہر کی کہ جاری مذاکرات دونوں ملکوں کی معیشتوں کے لیے مثبت نتائج کے حامل ہوں گے۔
پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق توقع ہے کہ اگلے ہفتے تک ان مذاکرات کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کے آخر میں محمد اورنگزیب اور لوٹ نک کے درمیان ایک ورچوئل میٹنگ بھی ہو چکی ہے۔
تجارتی بات چیت میں بنیادی توجہ باہمی محصولات (ریسی پروکل ٹیرفس) پر مرکوز ہے، جو ان دنوں بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے اور پاکستان کی جانب سے امریکی برآمدات پر بھاری محصولات سے بچنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پاکستان اس وقت امریکی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف کا سامنا کر رہا ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تجارتی سرپلس رکھنے والے ممالک کو نشانہ بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان کا 2024 میں امریکا کے ساتھ تجارتی سرپلس تقریباً تین ارب ڈالر تھا۔
تجارتی عدم توازن اور محصولات کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے اسلام آباد نے واشنگٹن سے مزید مصنوعات بشمول خام تیل درآمد کرنے اور پاکستان کے معدنیاتی شعبے میں امریکی سرمایہ کاری کے لیے مراعات کی پیشکش کی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو اس وقت بڑا فروغ ملا، جب گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وہائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی ملاقات کے لیے مدعو کیا۔
ایران میں تین افراد کو ریپ کے جرم میں پھانسی دے دی گئی
ایرانی حکام نے شمالی شہر گرگان کی جیل میں ریپ کے جرم میں قید تین افراد کو آج ہفتے کی صبح پھانسی دے دی۔ عدلیہ کے مطابق یہ سزائیں جنسی زیادتی کے مقدمے میں سنائی گئی تھیں۔ عدلیہ کی سرکاری ویب سائٹ میزان آن لائن کے مطابق مقامی عدالتی سربراہ حیدر آسیابی نے بتایا، ’’ریپ کے جرم میں سزا پانے والے تین افراد کی سزائے موت پر آج صبح گرگان کی جیل میں عمل در آمد کر دیا گیا۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے مطابق ایران دنیا میں سزائے موت دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں قتل اور ریپ جیسے جرائم پر پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔
آسیابی نے مزید بتایا، ’’تین خواتین کی جانب سے ریپ کی شکایات کے بعد تین رکنی گروہ کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے واقعے کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ایران میں پھانسیاں عام طور پر صبح سویرے جیلوں میں دی جاتی ہیں، تاہم رواں ماہ کے آغاز میں شمال مغربی ایران میں ایک شخص کو عوامی طور پر پھانسی دی گئی تھی۔ اسے ایک کم عمر لڑکی کے ریپ اور قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، جس پر ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا۔
کانگو اور ایم 23 باغیوں کے درمیان امن کی راہ ہموار، دوحہ میں معاہدے پر دستخط
مشرقی جمہوریہ کانگو میں برسوں سے جاری خونریز جھڑپوں کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیش رفت کے تحت کانگو حکومت اور ایم 23 باغی گروپ نے دوحہ میں آج بروز ہفتہ ایک اصولی اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ اعلامیہ جنگ بندی اور امن مذاکرات کی بنیاد فراہم کرے گا، اگرچہ متعدد اہم نکات پر تاحال اتفاق ہونا باقی ہے۔
قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات کا آغاز اپریل میں ہوا تھا، اور کئی ماہ کی بات چیت کے بعد دونوں فریقوں کی نمائندگی کرنے والے وفود نے ہفتے کے روز ایک مشترکہ تقریب میں اعلامیے پر دستخط کیے۔
امریکہ کی جانب سے اس امن عمل پر مسلسل زور دیا جاتا رہا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ ایک پائیدار معاہدہ مغربی سرمایہ کاری کو اس خطے کی جانب راغب کرے گا، جو تانٹلم، سونا، کوبالٹ، تانبہ، لیتھیئم اور دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے۔
واضح رہے کہ روانڈا کی حمایت یافتہ ایم 23 باغیوں نے رواں سال جنوری میں مشرقی کانگو کے سب سے بڑے شہر گوما پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں نارتھ کیوو اور ساؤتھ کیوو کے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کی، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
مارچ میں قطر نے فریقین کے مابین ایک غیر متوقع ملاقات کروائی تھی، جس میں کانگو کے صدر فیلکس تشیسکیدی اور روانڈا کے صدر پال کاگامے نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسی ملاقات کے بعد براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوا، حالانکہ اس سے پہلے کانگو حکومت ایم 23 کو ’’دہشت گرد گروپ‘‘ قرار دے کر بات چیت سے انکار کرتی رہی تھی۔
ذرائع کے مطابق دونوں وفود مذاکرات کی سست رفتاری اور اعتماد سازی کے اقدامات میں پیش رفت کی کمی پر مایوس نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ایم 23 کے قیدیوں کی رہائی اور باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں بینکوں کی بحالی جیسے معاملات پر تاحال کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان اصولی معاہدے پر دستخط ایک مثبت قدم ہے اور اگر یہ عمل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کی ثالثی اس بحران کے پُرامن حل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
جنوبی کوریا کے سابق صدر پر فرد جرم عائد
جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول پر ہفتے کے روز اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری امور میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات میں فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے، جبکہ حکام ملزم کے خلاف بغاوت کے الزامات سے متعلق تحقیقات کو وسعت دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یون نے تین دسمبر 2024 کو مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر کے ملک کو سیاسی بحران میں دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کو روکنے کے لیے فوجی دستے بھیجے تھے تاکہ ارکان اسمبلی اس اقدام کو مسترد نہ کر سکیں۔
یون جنوری میں گرفتاری کے بعد حراست میں لیے جانے والے جنوبی کوریا کے پہلے برسرِ اقتدار صدر بن گئے تھے، اس سے قبل انہوں نے کئی ہفتے تک گرفتاری سے بچنے کی کوشش کی اور صدارتی سکیورٹی عملے کے ذریعے تحقیقات کو روکے رکھا۔
مارچ میں انہیں تکنیکی بنیادوں پر رہا کر دیا گیا تاہم ان کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت جاری رہی۔ گزشتہ ہفتے انہیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا، استغاثہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ اپنے شواہد مٹا سکتے ہیں۔
پراسیکیوٹر پارک جی یونگ نے ہفتے کے روز صحافیوں کو بتایا، ’’استغاثہ نے سابق صدر یون سک یول پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے جیسے الزامات میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔‘‘ یون کے خلاف مقدمہ ملکی تاریخ میں ایک اور غیر معمولی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو جمہوری اداروں اور فوجی اثر و رسوخ کے درمیان کشمکش کی نشاندہی کرتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے: امدادی مراکز کے قریب 26 فلسطینی ہلاک، 100 سے زائد زخمی
غزہ میں حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی نے ہفتے کے روز بتایا ہے کہ جنوبی غزہ میں دو امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں 26 فلسطینی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔
ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے اے ایف پی کو بتایا کہ خان یونس کے جنوب مغرب میں واقع ایک امدادی مقام کے قریب 22 افراد مارے گئے، جب کہ رفح کے شمال مغرب میں ایک اور مرکز کے قریب چار افراد جان کی بازی ہار گئے۔
ترجمان نے دونوں واقعات کا ذمہ دار ’’اسرائیلی فائرنگ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ غزہ میں جاری جنگی صورتحال کے باعث امدادی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں، جبکہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
شام کے صوبے سویدا میں خونریز جھڑپوں کے بعد سیزفائر کا حکومتی اعلان
شام کے صدارتی دفتر نے آج ہفتہ 19 جولائی کو ملک کے جنوبی علاقے سویدا میں ایک ہفتے سے جاری خونی جھڑپوں کے بعد فوری اور مکمل جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ صدارتی بیان میں تمام فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوراً لڑائی بند کریں اور ہر سطح پر دشمنی ختم کریں۔
ادھر شامی وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق سرکاری سکیورٹی فورسز کی سویدا شہر میں دوبارہ تعیناتی شروع کر دی گئی ہے تاکہ امن و امان بحال کیا جا سکے۔
اس سے قبل مشرق وسطی کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور شام نے سویدا میں جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ برطانیہ میں قائم اور انسانی حقوق کی نگران غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق سویدا میں ایک ہفتے کے دوران 718 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 146 دروز جنگجو 245 عام شہری (جن میں سے 165 کو شامی وزارت داخلہ و دفاع کے اہلکاروں نے ماورائے عدالت قتل کیا) سکیورٹی فورسز کے 287 اہلکار، 18 بدو قبائلی جنگجو جبکہ تین بدو شہری (جنہیں دروز جنگجوؤں نے قتل کیا) اور 15حکومتی فوجی اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے۔
اس تنظیم کے مطابق یہ جھڑپیں گزشتہ اتوار سے جاری تھیں، جو دروز جنگجوؤں، سنی بدو قبائل اور حکومتی فورسز کے درمیان ہوئیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر فولکر ترک نے جمعہ کے روز سویدا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام فریقوں کے خلاف آزاد، فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یاد رہے کہ سویدا میں تشدد کے دوران اسرائیل نے حکومتی افواج کو پیچھے ہٹانے کے لیے دمشق اور سویدا میں فضائی حملے بھی کیے تھے۔ سویدا میں حالات فی الوقت پرسکون ہیں تاہم کشیدگی بدستور برقرار ہے۔ مبصرین کے مطابق، مکمل امن کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر مسلسل سفارتی کوششوں کی ضرورت باقی ہے۔