پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع
31 مارچ 2025پاکستانی دارالحکومت اور اس کے گرد و نواں میں آباد افغان باشندوں کو مارچ کی اکتیس تاریخ تک رضا کارانہ طور پر اس علاقے کو خالی کر دینے کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ پیر کو اس ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد یکم اپریل سے ایسا نہ کرنے والوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہونا تھا تاہم اب اس میں توسیع کر دی گئی ہے۔
مغربی ممالک جانے کے منتظر افغانوں کو ملک بدر کر سکتے ہیں، پاکستان
پاکستانی حکام نے رواں سال 30 لاکھ افغان باشندوں کو ملک بدر کر دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں جن میں زیادہ تر افغان باشندے شامل ہیں، کی ملک بدری کا سلسہ اکتوبر 2023ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس مہم کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں، کابل کی طالبان حکومت اور اقوام متحدہ کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔
کچھ افغانوں کے لیے رعایت: حکومتی فیصلے کی پذیرائی
یکم اپریل سے شروع ہونے والی کارروائیاں
اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں آباد غیر ملکیوں، خاص طور پر افغان باشندوں کو 31 مارچ تک رضا کارانہ طور پر علاقے سے انخلا کی مہلت دی گئی تھی۔ ایسا نہ کرنے والوں کی گرفتاریاں اور ملک بدری یکم اپریل سے شروع ہونا تھی تاہم اس مدت میں توسیع کر دی گئی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی طرف سے دیکھی گئی سرکاری دستاویزات کے مطابق اس ڈیڈ لائن میں رمضان کے ختم ہونے اور عیدالفطر کے بعد یعنی 10 اپریل تک کی توسیع کی گئ ہے۔
کتنے افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں؟
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تقریباً 845,000 افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ 30 لاکھ افغان اب بھی ملک میں موجود ہیں۔ ان میں سے 1,344,584 کے پاس رجسٹریشن کارڈز کا ثبوت موجود ہے جبکہ 807,402 کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہے۔ پاکستان میں مزید 10 لاکھ افغان باشندےبھی موجود ہیں، جو غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی سفری یا شناختی دستاویز نہیں ہے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملک بدر ہونے والے افغان باشندے واپس پاکستان نہ آئیں۔
’افغانوں کی ملک بدری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو گی‘ اقوام متحدہ
افغان باشندوں کے لیے امریکی پروگرام
2021 ء میں طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان باشندے اپنے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ انہیں ایک خاص پروگرام کے ذریعے امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس میں وہ افغان باشندے بھی شامل تھے، جو امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے دوران مختلف امریکی اداروں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ممکنہ طور پر طالبان کا نشانہ بن سکتے تھے۔
امریکہ کے دوسری بار صدر منتخب ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی رواں سال جنوری میں امریکہ کے پناہ گزینوں کے پروگرام پر کاری ضرب لگائی۔ جس سے متاثر ہونے والے 20 ہزار افغان باشندے اپنے مستقبل کے فیصلے کے انتظار میں بے چینی کا شکار ہیں۔
جرمنی: افغانوں کی ملک بدری کے خلاف مظاہرہ
کابل میں طالبان حکومت چاہتی ہے کہ افغان مہاجرین عزت کے ساتھ ملک واپس آئیں۔ افغان مہاجرین کے اخراج سے متعلق دستاویزات میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ،'' کسی بھی افغان عہدیدار کو کسی کمیٹی یا فیصلہ سازی کے رسمی طریقہ کار کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔‘‘
افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین کے ترجمان عبدالمطلب حقانی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پاکستان افغان مہاجرین کی ملک بدری کے فیصلوں میں من مانی کر رہا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یا طالبان کو شامل کیے بغیر یہ فیصلے کیے ہیں۔